Archive for the ‘منظوم دیباچہ’ Category

تسلسل

میرے پیارے دوست، بزرگ ، اور استاد ڈاکٹر باسط حسین کی ایک انگریزی نظم کا اردو ترجمہ

باسظ حسین صاحب کی نظم اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے

 

زخمی آوازیں ، وہی الفاظ دہرائے ہوئے

پھر وہی سوچوں کے گھاؤ ، شور زخمائے ہوئے

مسخ کر دیتے ہیں انساں کاشعور!

رحمت یزداں ملے جو انتہائے شوق سے

جگمگا اٹھتی ہے قسمت بن کے نورِ کوہِ طور

تتلیاں خوابوں کی، مٹھی میں اگر آ جائیں تو

رنگ پھیلیں سوچ کے روزن سے آتی دھوپ میں

لیکن ایسی انتہائے شوق بھی ،

دسترس نا دسترس کے درد سے

دِل کو تڑپاتی رہے

سلسلے ٹوٹیں تو پھر کب جڑ سکیں

جاتے پنچھی کب گھروں کو مڑ سکیں

یاد کا قُقنس مگر زندہ رہے

آگ میں جل کر ملے پھر زِندگی

خاک میں مل کر جلے پھر زِندگی

منجمد ہو جائیں سب برفیلے طوفانوں کے بیچ

اور لمحے میں بدل جائے کبھی سارا سماں

فرطِ قحطِ نم کبھی جنگل کے جنگل دے اجاڑ

اور کبھی بارش نہ تھم پائے اجڑ جائے جہاں!

وقت کی چکیّ میں زندہ بے یقینی ہی رہے

یہ تسلسل خواب کا جاری رہے

نومبر ۱۹۹۸

فردا نژاد

Posted: 2011/06/26 by admin in منظوم دیباچہ

محترم آفتاب اقبال شمیم کی کتاب فردا نژاد کا دیباچہ جو انہوں نے لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کے اوائل میں منظوم کیا

شعورووجد میرے مجھ کو ہر دم ہی بتاتے ہیں
کہ دنیا جس میں پیدا میں ہوا ۔۔۔ نا آفریدہ ہے !
میں آیا ہوں عدم تکمیل کے مارے ہوئے ایسے مناظر کو
ذرا تشنہ سی اِک پہچان دینے
کہ میری روشنی کے سب علاقے
مرے اندر، مرے باہر، مرے دائیں، مرے بائیں کہیں ہیں
اور ان کے بیچ میں طرفہ خلا ہے
علاقے یہ کہ جیسے ہوں جزیرے
عجب اِک بحرِ پر اسرار کے اندر
چھپے ہیں، تیرتے ہیں، ڈوبتے ہیں اور ابھرتے ہیں
زِندگی!
مجھ کو مٹا کر پھر بناتی ہے
بنا کر پھر مٹاتی ہے
مگر ہر بار اِک ہی نقش بنتا ہے
کہ جس میں اس کا جوہر
عجب سی لا تعلّق خارجی سچّائی سے دست و گریباں ہے
تو کیا یہ جِنگ دائم ہی رہے گی؟
تو کیا انجام اس کا کچھ نہ ہو گا؟
جو پوچھو مجھ سے تو میں زِندگی کے حق میں کوئی بھی گواہی دے نہیں سکتا
کہ اس کی وسعتیں، گہرائیاں اور سرحدیں
مری پابند سوچوں کے احاطے ہی سے باہر ہیں
مرا ماضی!
مری اپنی فنا کا اور بقا کا اِک حوالہ ہے
مری تاریخ بھی میری فنا کی اور بقا کی جدلیت کی ایک دستاویز سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
نہیں کچھ اس ذرا سے تجربے سے بڑھ کے
جو ماضی سے مستقبل کی صبحیں ڈھونڈتا ہے اور مجھے مصروف رکھتا ہے
مری آزادیوں کے راستوں کو بند کرتا ،
میرے امکانات کا رخ طے شدہ رستے کی جانب موڑتا ہے
وہ رستہ جس میں کتنے ہی حوادث کے ہزاروں موڑ بستے ہیں
میں حاصل ہوں اسی اِک تجربے کا،
اسی رستے کا آئندہ
مگر ان راستوں میں دور اتنا جا چکا ہوں،
کہ پھر سے اپنی خود دریافتی کے سارے امکانات اب معدوم ٹھیرے ہیں
اجتماع !
اِک ساتھ رہنے کی پناہیں چاہتا ہے،
بکھر کر ٹوٹ جانے کا تصور ہی کچھ ایسا خوف آور ہے
زمانہ اس ارادے کے مہیب اظہار کا دریا سا بن کے
رواں رکھتا ہے اس کو درمیاں اپنے کناروں کے
اجتماع !
مظہرِروئیدگی ء زندگی ہے
اور ٹھٹھرتی منطقوں سے دور رہتا ہے
دہکتی دھوپ میں آجائے تو ہر مرتبہ
نئے اِک روپ کی چھاؤں کی چادر اوڑھ لیتا ہے
فرد!
تو بس زِندگی کا مرکزہ ہے
جسے سرسبزی کی خواہش بہت بے چین رکھتی ہے
حقیقت پوچھتے کیا ہو!
مجھے تو اجتماعوں میں بسے رہنے کی خواہش
اور ان سے ٹوٹ کر دور اور الگ رہنے کی تشنہ آرزوؤں نے
ہمیشہ مضطرب رکھا ہے
میں نے تو ہوائے تند کو اپنی لچک کا بے بہا تاوان بھی بخشا
اور سب کی ہمرہی کو،
راہداری سے گزرنے کی اجازت کو
سسکتی روح کو بھی داغوایا ہے!!
اگر ایسا نہ کرتا تو
بھلا یہ نظم کیسے لکھتا جو اب زِندگی کے سامنے
رکھی ہوئی پتھر کی تختی پر
خود اپنے ہی نہ ہونے اور ہونے کا نظارہ دے رہی ہے
عجب مشکل تو یہ ہے رنج کے اس معرکے میں
مرے مدِّ مقابل اور کوئی بھی نہیں میں خود کھڑا ہوں!!
کبھی خود ہی زمانے کی کوئی دیوار بن کر
کبھی پہچان کے اونچے نکلتے قد کا کوئی سایہء بےکار بن کر
زید اور میں خواب تکتے ہیں
زید ہے وہ فردِ اوّل،
عنصری انسان ایسا جس کی بنیادوں پہ میرا
معاشرتی تشخّص قائم و دائم ہے
وہ اور میں جبر کے شاہی قلعے میں قید ہیں
اور برف پر لیٹے حسیں خوابوں کی دنیا میں اکٹّھے سیر کرتے ہیں
یہیں سے دور کے اس شہر کو حسرت سے تکتے ہیں
جہاں پر داسیاں،
محبت اور آزادی کے مندر میں تھرکتے ناچتے خود اپنی ہی خوشبو میں ڈھل جاتی ہیں
اور
پھر حسن خود کو منکشف کر کے خود اپنے وصل کی خبریں سنا تا ہے
اور اِک فردِ دِگر کی آفرینش،
گزارے سب حوالوں کو مکمل طور سے نابود کر دیتی ہے
ہر لمحہ ہی گویا لمحہء تخلیق بن جاتا ہے
میں اور زید دونوں کرب کے دریا کی لہروں میں
پگھل کر بہتے بہتے اپنی اپنی وسعتوں میں غرق ہو جاتے ہیں
اور یہ سیر گاہِ خواب بے سرحد ،
مکمل طور سے لا منتہی ہے
ہمارے سامنے تقدیر کی مہمیز اپنی سرخیاں،
زمیں کی پسلیوں کے بے بہا رِستے لہو
سے لے رہی ہے
خلاؤں کو سُموں جیسے ستارے
نئے افلاک دیتے ہیں
ہر اِک اٹھتا قدم اگلے فرازوں کی نئی دہلیز بنتا ہے
یہاں اس خوبصورت شہر میں فردا کے باسی رہ رہے ہیں
حسیں ہیں،
اورتوانا اور گنہ سے دور
جو اندر اور باہر کی ہر اک دیوار بالکل توڑ بیٹھے ہیں
جو رفتہ اور آئندہ کے پاٹوں میں نہیں پِستے
جو آزادی کے دریا کو سبھی سمتوں میں چلتا دیکھتے ہیں
جو کل کے شہر کو شعلے دکھا کر
نحوست سے بھرے زرموش کی بیماریاں سب تلف کر بیٹھے
وہاں سب ہی برابر ہیں
وہاں کوئی کسی کے حق کا غاصب ہو نہیں سکتا
محبت بو کے فصلیں روشنی کی کاٹتے ہیں
کہو، کیسی منوّر سی زمیں ہے،
جہاں پر چاہتوں کی باد رقصاں ہے
حسیں سپنوں کی وادی دیکھنے سے
ہمیں بولو تو آخِر کون روکے گا
یہ فطرت تو تخیّل کی دلہن ہے
اوراِس کی بیوگی اب ہم نہ دیکھیں گے
فقط ہم خواب دیکھیں گے

مرے آدرش کا سورج جہاں نکلا
وہ خِطّہ تو سدا اِک کاسئہ پسماندگی تھامے
زمانے سے ذرا سی تیز حرکت کی گدائی کو کھڑا ہے
میں اپنی بستیوں میں بچپنے سے
جہل اور غربت کو رقصاں دیکھتا آیا
کہیں سے دستِ نا معلوم پیادوں کو گھروں میں اور بازاروں میں ہر اِک پل نچاتا ہے
ازل سے اپنا لا یعنی سفر جاری و ساری ہے
یہاں پر کچھ بڑے ہیں
جو کہ بس بے حد بڑے ہیں
باقی سب کے سب ہی چھوٹے ہیں
یہاں بے معنی دنیا داریاں تقدیس کے مہنگے لبادوں میں سجا کر طاقچوں پر رکھی جاتی
ہیں
یہاں اشیاء سے الفت کی بہت تلقین ہوتی ہے
یہاں اِک دوسرے کے درمیاں کے فاصلوں کی وجہ
نامعلوم زور آور کی بے رحمانہ ضرورت ہے
یہاں انساں کو نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
مگر میں جو کئی نسلوں سے ایسی سرزمیں میں منزلوں کو ڈھونڈتا ہوں
نہیں مایوس بالکل بھی
مجھے تو کل بھی آنا ہے
خبر کیا دکھ کی ایسی یاترا سے جب بھی لوٹوں
مجھے معنی کے، سر افرازیوں کے اس سفر کا
سراغِ خفتہ مل جائے
عمل لفظوں کے جڑنے اور تڑنے کا حرارت خیز ہوتا ہے
مگر صرف اس قدر
کہ شب زارِمعانی میں کوئی چھوٹی سی شمع جل سکے
مرے اور میرے لفظوں کے حواس انمول ہیں
کہ ان میں جرأتِ انکار اور اقرار کی قوّت برابر ہے
یہ سچ کی رَو کو اپنے بیچ سے بہنے بھی دیتے ہیں،
ہماری روح میں گویا جڑوں کی طرح پھیلے ہیں
ہمارے نطق کی شاخوں سے پتوں کی طرح کھِلتے ہیں
جِن میں نصف سچّائی کی ہریالی دکھاتے ہیں
انہی لفظوں کی روشن اور انمٹ سی سیاہی سے
مرے اندر کے شاعر نے یہ ساری نظمیں لکھی ہیں

یاور ماجد
۲۰۰۲

وہ اور میں

Posted: 2011/06/26 by admin in منظوم دیباچہ

محترم انکل آفتاب اقبال شمیم کی کتاب زید سے مکالمہ کا دیباچہ جو انہوں نے خود لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کی ابتدا میں منظوم کیا

ہمارے دور کی اس نظم ِبے آخر کا یہ اِک اقتباس ِچند منظر ہے
کہ جس کی وجہِ پیدائش
کسی جغرافیے یا پھر کسی بھی خاص خطے سے کوئی ناطہ نہیں رکھتی
اگرچہ یہ ہمارے دور کی تہذیب کی جہتوں
ہمارے کنج ہائے ذہن کے پردہ سرائے نفس کے منظر دکھاتا ہے؛

یہ ایسی نظم ہے جو لمحہءِ موجود کی اصلیتوں کے خارج و داخل کے منظر
اور صدا کو پیش کرتی ہے
بجائے رزمیے کے المیے کی داستانِ خونچکاں تالیف کرتی ہے
ہمارے دور میں ابلیس یا سہراب جیسے سورما پیدا نہیں ہوتے
ہماری آنکھ سے تاریخ کے پردے اٹھے تو
ہم نے رومانی روّیوں کے گلستاں کو جلا کر راکھ کر ڈالا

ارسطو ہو یا رومی ہو
خدا ہو یا کہ پرمیشر ! ہماری ہی وراثت ہیں
کہ صدیوں کے عمل نے اور تو کچھ ہو نہ ہو
ہم کو شعور زِندگی بخشا ہے
ہم انسان کو خطوّں میں کیسے منقسم کر دیں
کہ ہم مرکز ہیں اور فطرت زمین اور زِندگی گویا ہمارے دائرے ہیں
پس ِآئینہ کیا معلوم جانے کیا حقیقت ہے

مگر تا حال تو صدیوں پہ پھیلے واقعوں کے موڑ ایسا ہی بتاتے ہیں
کہ انسان تاکراں حیرانیوں کے بحر میں کب سے
ہوائے صد زماں کے ان گنت سفاک اور ظالم تھپیڑوں میں ،
اکیلا زِندگی کی ناؤ پر بہتا رہا ہے !
بظاہر تیرگی کے بے سروپا اور نابینا سفر میں موت کے آگے اکیلا ہے !

ہزاروں مسئلے ہیں اور موجودات کا خود سے تصادم بھی
تو کیا اپنے تضادوں کے سفر میں ایک دن پامال ہو جائے گا؟
اِک بے جان عنصر کی طرح
صدہا عناصر کے ازل سے تابہ محشر تجربے کا حصہ ٹھیرے گا ؟
یا اپنے آپ سے ہی ماورا ہونے کا سوچے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

تو کیا پھر زِندگی اس سے بھی بڑھ کر افضل و اعلیٰ
کوئی مخلوق پیدا کر دکھائے گی ؟
ہمارا دائروں کا یہ سفر جاری رہے گا کیا ؟

مگر میں دیکھتا ہوں اشرف المخلوق میں امکان کے مثبت اشارے ہیں
کہ وہ خود سے بھی کچھ آگے نکل جائے

ذرا مڑ کر تو دیکھو!
بستیاں پامال کرنے والے وحشی سورما کا نام پاتے تھے ،
مگر اب ہم شعور زِندگی رکھتے ہیں ، ان کو قابل ِنفرت سمجھتے ہیں
وہ استبداد و استحصال جو کل تک ہمارا بے بدل مقسوم ٹھیرا تھا
ابھی بھی ہے
مگر اب سارے مظلوموں پہ یہ احساس حاوی ہے
کہ جور و جبر جو کل تک اٹل تھا
اور لازم تھا
اسے وہ ٹال سکتے ہیں
انہیں ہر حال میں اس کو مٹانا ہے
انہیں اب آدمیت کی نئی قدریں بنانا ہیں

ہمیں ادراک ہے
ان نشہ آور فلسفوں ، افیوں فروشوں کی ثقافت
کے پلے بیجوں سے صرف اِک عالمی نفرت کی پیلی فصل اگتی ہے
ہمیں خوابوں کے بافندے بنایا جا رہا تھا
ہم انہی کی لوریوں سے نیند کی وادی میں پہنچے تھے
مگر ہم جاگ اٹھے ہیں !

ہم اپنی نیم وا آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے مندر میں رکھی مورتی کی غیبی قوت مشتہر کرنے پہ آخر کون بیٹھا ہے

یہ ہم جو جبر کے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہیں !
ہماری گردنوں سے قطرہ قطرہ سرخ جیون بہہ رہا ہے
ہمیں ادارک ہوتا جا رہا ہے زور آور کی سیاست کا !
مفاد اس کا جو اس کے حکم کی تحریر بنتا ہے
وہی پھر نسل بعدِ نسل کی تقدیر بنتا ہے

یہ مانا اب حقیقت روشنی بن کر
ہماری سوچ پر افشا تو ہونے لگ پڑی
لیکن
حقیقت خود معمہ ہے !
یہ رومانی روّیہ تو بڑا آسان ہے شیشے کو گہری سانس
سے دھندلا کے جو چاہیں وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں !
یہ گہری سانس ظاہر میں کئی خوشیوں بھرے منظر دکھاتی ہے
تو باطن میں کئی پردے گراتی ہے
مگر ایسے عمل میں ہم نے یہ ادراک پا یا ہے !
کہ کوئی اخذ و حاصل آخر ی حاصل نہیں ہوتا
کوئی بھی فلسفہ حتمی نہیں ہوتا

یہ ہم فکر و تصور سے معانی کا جو تانا بانا بنتے تھے
کبھی بھی زِندگی کی جامعیت تک نہیں پہنچا
ہمارے اس عمل نے لاشعوری
اور شعوری فاصلوں کو اور زیادہ وسعتیں بخشیں
سزاؤں ، دھمکیوں ، پندو نصائح کی بٹی رسی کی جِنبش پر
ہمیں چلنا بھی آیا
اور ہم فطرت اکائی سے الگ ہوکر
کئی اشیا کی منڈی اور کلیسا کے سفر میں کھو گئے آخر

چلو آؤ ناں
سادہ اور آساں زِندگی کی راہ پر چل دیں !
سخاوت اور احساں ہی تو وہ انصاف ہے
جو زِندگی ہم سے طلب کرتی ہے
کیا ممکن نہیں ایسا کہ یہ انصاف کر کے نوع ِہستی کو بدل ڈالیں

نہیں !
یہ سب امکان کی حد میں ہے، کل کی دسترس میں ہے

میں ڈرتا ہوں !
میں اپنے ہی گریباں میں بھلا کیا جھانک کر دیکھوں
یہاں اب تک رفو کا بے تحاشا کام باقی ہے !

یہاں تو اب تلک شخصی حکومت چل رہی ہے
یہاں ابلاغ عامہ کا جو اسرافیل ہے
وہ جاگتوں کو بھی سلانے پر لگا ہے
یہاں انسان کو پیہم ہی نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
یہاں تو مرد نے
بے چاریوں کی ذمہ داری تک بھی جبراً پاس رکھی ہے
یہاں ایسا بھی طبقہ ہے
امیر شہر کو جو کج کلاہی کے سبھی تیور سکھاتا ہے
اسی طبقے کی حکمت اور حکومت اس جگہ موقع پرستی ، دوغلے پن کی
نہایت حوصلہ افزائی کرتی ہے

ثقافت جب کلیشے اور نابینائی کے سینچے ہوئے جذبات سے بنتی ہو
تو پائے گدائے لنگ کے مانند بے ساکھی پہ چلتی ہے
گدا کی خانقاہوں میں بڑی توسیع ہوتی ہے
یہاں آنکھوں کا بھینگا پن نہیں جاتا

یہاں ایذا پرستی ، دکھ اٹھانے کا تلذ ّذ کس طرح جائے
کہ یہ آزار تو ان کی وراثت ہے
یہ سب صدیوں کی تنبیہہ و سزا کے باوجود
اپنی وراثت کے نشے میں مست رہتے ہیں !

مری ساری امیدوں کا
مگر !
محور یہی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہی ہیں وہ جو اس کے دِل میں کانٹے کی طرح چبھہ کر
اسے وحشت دلاتے ہیں
میں خود بھی اس قبیلے میں بصد اعزاز شامل ہوں
میں اپنی زِندگی کے آئینہ خانے میں
عکسوں کے عجب الجھاؤ میں رہتا ہوں
یہ تاریخ کیا ہے
یہ عناصر اور وقت اپنی حقیقت میں بھلا کیسی قیامت ہیں
میں اس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں
جو دور صدزماں سے بے تغیر چل رہا ہے

اسی انبوہ کا اِک فرد ہے
جو مجھ میں بیٹھا میرے نوحے میرے نالے سن رہا ہے
اور جو فطرت میں باہر میرے اندرہے
اسی کا عکس ہوں شاید !
ثمر ہوں ایسی مٹی کا جسے دھوپوں نے گرمی میں پکایا ہو !
میں اس تاریخ کا ننھا خلاصہ ہوں
جو ناپختہ ارادے ، سوچ کی محدودیت ، لا انتہا خواہش ، گھنی گہری
جبلت کے الجھتے اور ملتے واقعوں سے بنتی رہتی ہے

مرے اندر شکستوں کے گھنے سائے ہیں
امکانوں کے جھلمل بھی !
میں اپنے آپ سے کچھ مطمئن ہوں
مضطرب بھی ہوں !
میں ندی کی روانی ہوں
کناروں کا ہوں ٹھیراؤ !
میں حسن اور زِندگی سے بے تحاشا پیار کرتا ہوں

،،مجھے خود سے مکمل اجِنبیت ہے،،

میں اپنے دِل کی تنہائی میں اکثر زید سے ملتا ہوں
اپنے سچ سے ملتا ہو ں!

میں اس سے گفتگو کرتا ہوں اکثر ! لیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یک طرفہ !
وہ میرے سامنے ہے اور مری پہچان سے باہر بھی رہتا ہے
اسے پہچانوں تو کیسے ! کہ میری آنکھیں گھائل ہیں
،،وہ اور میں،، زِندگی کے دو اہم کردار ہیں
جو دور اِک دوسرے سے لفظ و معنی کی رسائی میں
جو چاہیں بھی تو شاید مل نہیں سکتے
وہ میرا اور میں اس کا کبھی محرم نہیں ٹھیرے

وہ میری پوری سچّائی ہے
اور میں آدمی کے اصل کی آدھی صداقت ہوں!
کہ میں صدیوں سے اس سے گفتگو میں گم ہوں
اور یہ گفتگو ایسی جو یک طرفہ رواں ہے

مرا ایمان ہے اگلے جِنم بھی جب میں آؤں گا
مری اور زید کی یہ گفتگو دائم رواں ریگ ِفرات ِتشنگی پر چل رہی ہوگی

 

یاور ماجد

جون ۱۹۹۳