Archive for the ‘نظم’ Category

خواب

Posted: 2016/01/02 by admin in نظم, اردو شاعری
ٹيگز:,

اچانک ہی جھٹکے سے میرے بدن کی ہر اک پور میں جیسے کہرام اٹھا

کچھ ایسا لگا جیسے میں اک گڑھے میں کفن اوڑھ کر سو رہا تھا

مگر دھیرے دھیرے پھسلنے لگا ہوں ۔۔۔

 

میں گرنے لگا ہوں

میں گرتا چلا جا رہا ہوں

میں گرتا ہی

گرتا ہی

گرتا چلا جا رہا ہوں

میں گرتے ہوئے اور تیزی سے گرتا چلا جا رہا ہوں

مرے ہاتھ شل ہیں

مرے پاؤں؟

وہ تو یہ سمجھو کہ ہیں ہی نہیں ہیں

مرے بازوؤں میں ذرا دم نہیں ہے

بدن سن ہے،

اور کانوں میں سائیں سائیں

اور اک خوف سا ہے

جو خوں بن کے میری رگوں میں رواں ہے

توازن بھی گویا کوئی چیز ہو گی؟؟

کہاں ہے؟

اور اک کالا سایہ مرے پیچھے پیچھے گرا آ رہا ہے

اور اس کالے سائے کے چہرے پہ آنکھیں

۔۔۔۔۔۔ بٹن جیسی آنکھیں

مجھے گھورتی ہیں

اور اس کا دہن ۔۔۔ !!!

اس کا خونی دہن !

چیختا آ رہا ہے

مرے جسم میں،

میری پوروں میں جتنی بھی طاقت بچی ہے

اسے جمع کر کے

میں کوشش میں ہوں

۔۔ چیخ ماروں ۔۔

میں اس کالے سائے کو جو میرے سر چڑھ گیا ہے

۔۔ اتاروں ۔۔

مگر میری آواز ہی گم گئی ہے!

اچانک کسی کھائی سے ٹن ٹنن ٹن ٹنن کی بہت تیز آواز

کانوں تو کیا

روح تک چھید کرنے لگی ہے

میں کیا دیکھتا ہوں

میں بستر پہ چادر کو مضبوطی سے تھام کر پیٹ کے بل پڑا

ٹن ٹنن ٹن سے بجتے الارم کو دیکھے چلا جا رہا ہوں

گرا جا رہا ہوں

یاور ماجد

۲۸ دسمبر ۲۰۱۵

خواب ۔ نظم

The picture in this poem is copyright by Michal Bednarek, used here without his permission as I could not personally reach him.

تسلسل

میرے پیارے دوست، بزرگ ، اور استاد ڈاکٹر باسط حسین کی ایک انگریزی نظم کا اردو ترجمہ

باسظ حسین صاحب کی نظم اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے

 

زخمی آوازیں ، وہی الفاظ دہرائے ہوئے

پھر وہی سوچوں کے گھاؤ ، شور زخمائے ہوئے

مسخ کر دیتے ہیں انساں کاشعور!

رحمت یزداں ملے جو انتہائے شوق سے

جگمگا اٹھتی ہے قسمت بن کے نورِ کوہِ طور

تتلیاں خوابوں کی، مٹھی میں اگر آ جائیں تو

رنگ پھیلیں سوچ کے روزن سے آتی دھوپ میں

لیکن ایسی انتہائے شوق بھی ،

دسترس نا دسترس کے درد سے

دِل کو تڑپاتی رہے

سلسلے ٹوٹیں تو پھر کب جڑ سکیں

جاتے پنچھی کب گھروں کو مڑ سکیں

یاد کا قُقنس مگر زندہ رہے

آگ میں جل کر ملے پھر زِندگی

خاک میں مل کر جلے پھر زِندگی

منجمد ہو جائیں سب برفیلے طوفانوں کے بیچ

اور لمحے میں بدل جائے کبھی سارا سماں

فرطِ قحطِ نم کبھی جنگل کے جنگل دے اجاڑ

اور کبھی بارش نہ تھم پائے اجڑ جائے جہاں!

وقت کی چکیّ میں زندہ بے یقینی ہی رہے

یہ تسلسل خواب کا جاری رہے

نومبر ۱۹۹۸

Random Thoughts by Dr. Basit Hussian

Posted: 2011/06/26 by admin in نظم

Random Thoughts

Dr. Basit Hussein

 Cited words, tortured voices, uttered phrases, random noises

            etch a person’s mental health

Blessings conferred, prayers bestowed

            fuse to an eternal wealth

Dream chases will precede success

            but sift out pipe dreams, save your sense

Extremes destroy, tone down, evade

            intense love ties can crush when frayed

Connections break, relations stray

            friends will go their own way

                        fond memories, faith, are there to stay

Beings shrivel from scorching heat

            snowstorms freeze the workers’ clique

                        winds can change within a beat

Can’t quench the thirst, can’t find a drop

            then cities drown, for rain won’t stop

                        uncertainty, change reside on top

فردا نژاد

Posted: 2011/06/26 by admin in منظوم دیباچہ

محترم آفتاب اقبال شمیم کی کتاب فردا نژاد کا دیباچہ جو انہوں نے لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کے اوائل میں منظوم کیا

شعورووجد میرے مجھ کو ہر دم ہی بتاتے ہیں
کہ دنیا جس میں پیدا میں ہوا ۔۔۔ نا آفریدہ ہے !
میں آیا ہوں عدم تکمیل کے مارے ہوئے ایسے مناظر کو
ذرا تشنہ سی اِک پہچان دینے
کہ میری روشنی کے سب علاقے
مرے اندر، مرے باہر، مرے دائیں، مرے بائیں کہیں ہیں
اور ان کے بیچ میں طرفہ خلا ہے
علاقے یہ کہ جیسے ہوں جزیرے
عجب اِک بحرِ پر اسرار کے اندر
چھپے ہیں، تیرتے ہیں، ڈوبتے ہیں اور ابھرتے ہیں
زِندگی!
مجھ کو مٹا کر پھر بناتی ہے
بنا کر پھر مٹاتی ہے
مگر ہر بار اِک ہی نقش بنتا ہے
کہ جس میں اس کا جوہر
عجب سی لا تعلّق خارجی سچّائی سے دست و گریباں ہے
تو کیا یہ جِنگ دائم ہی رہے گی؟
تو کیا انجام اس کا کچھ نہ ہو گا؟
جو پوچھو مجھ سے تو میں زِندگی کے حق میں کوئی بھی گواہی دے نہیں سکتا
کہ اس کی وسعتیں، گہرائیاں اور سرحدیں
مری پابند سوچوں کے احاطے ہی سے باہر ہیں
مرا ماضی!
مری اپنی فنا کا اور بقا کا اِک حوالہ ہے
مری تاریخ بھی میری فنا کی اور بقا کی جدلیت کی ایک دستاویز سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
نہیں کچھ اس ذرا سے تجربے سے بڑھ کے
جو ماضی سے مستقبل کی صبحیں ڈھونڈتا ہے اور مجھے مصروف رکھتا ہے
مری آزادیوں کے راستوں کو بند کرتا ،
میرے امکانات کا رخ طے شدہ رستے کی جانب موڑتا ہے
وہ رستہ جس میں کتنے ہی حوادث کے ہزاروں موڑ بستے ہیں
میں حاصل ہوں اسی اِک تجربے کا،
اسی رستے کا آئندہ
مگر ان راستوں میں دور اتنا جا چکا ہوں،
کہ پھر سے اپنی خود دریافتی کے سارے امکانات اب معدوم ٹھیرے ہیں
اجتماع !
اِک ساتھ رہنے کی پناہیں چاہتا ہے،
بکھر کر ٹوٹ جانے کا تصور ہی کچھ ایسا خوف آور ہے
زمانہ اس ارادے کے مہیب اظہار کا دریا سا بن کے
رواں رکھتا ہے اس کو درمیاں اپنے کناروں کے
اجتماع !
مظہرِروئیدگی ء زندگی ہے
اور ٹھٹھرتی منطقوں سے دور رہتا ہے
دہکتی دھوپ میں آجائے تو ہر مرتبہ
نئے اِک روپ کی چھاؤں کی چادر اوڑھ لیتا ہے
فرد!
تو بس زِندگی کا مرکزہ ہے
جسے سرسبزی کی خواہش بہت بے چین رکھتی ہے
حقیقت پوچھتے کیا ہو!
مجھے تو اجتماعوں میں بسے رہنے کی خواہش
اور ان سے ٹوٹ کر دور اور الگ رہنے کی تشنہ آرزوؤں نے
ہمیشہ مضطرب رکھا ہے
میں نے تو ہوائے تند کو اپنی لچک کا بے بہا تاوان بھی بخشا
اور سب کی ہمرہی کو،
راہداری سے گزرنے کی اجازت کو
سسکتی روح کو بھی داغوایا ہے!!
اگر ایسا نہ کرتا تو
بھلا یہ نظم کیسے لکھتا جو اب زِندگی کے سامنے
رکھی ہوئی پتھر کی تختی پر
خود اپنے ہی نہ ہونے اور ہونے کا نظارہ دے رہی ہے
عجب مشکل تو یہ ہے رنج کے اس معرکے میں
مرے مدِّ مقابل اور کوئی بھی نہیں میں خود کھڑا ہوں!!
کبھی خود ہی زمانے کی کوئی دیوار بن کر
کبھی پہچان کے اونچے نکلتے قد کا کوئی سایہء بےکار بن کر
زید اور میں خواب تکتے ہیں
زید ہے وہ فردِ اوّل،
عنصری انسان ایسا جس کی بنیادوں پہ میرا
معاشرتی تشخّص قائم و دائم ہے
وہ اور میں جبر کے شاہی قلعے میں قید ہیں
اور برف پر لیٹے حسیں خوابوں کی دنیا میں اکٹّھے سیر کرتے ہیں
یہیں سے دور کے اس شہر کو حسرت سے تکتے ہیں
جہاں پر داسیاں،
محبت اور آزادی کے مندر میں تھرکتے ناچتے خود اپنی ہی خوشبو میں ڈھل جاتی ہیں
اور
پھر حسن خود کو منکشف کر کے خود اپنے وصل کی خبریں سنا تا ہے
اور اِک فردِ دِگر کی آفرینش،
گزارے سب حوالوں کو مکمل طور سے نابود کر دیتی ہے
ہر لمحہ ہی گویا لمحہء تخلیق بن جاتا ہے
میں اور زید دونوں کرب کے دریا کی لہروں میں
پگھل کر بہتے بہتے اپنی اپنی وسعتوں میں غرق ہو جاتے ہیں
اور یہ سیر گاہِ خواب بے سرحد ،
مکمل طور سے لا منتہی ہے
ہمارے سامنے تقدیر کی مہمیز اپنی سرخیاں،
زمیں کی پسلیوں کے بے بہا رِستے لہو
سے لے رہی ہے
خلاؤں کو سُموں جیسے ستارے
نئے افلاک دیتے ہیں
ہر اِک اٹھتا قدم اگلے فرازوں کی نئی دہلیز بنتا ہے
یہاں اس خوبصورت شہر میں فردا کے باسی رہ رہے ہیں
حسیں ہیں،
اورتوانا اور گنہ سے دور
جو اندر اور باہر کی ہر اک دیوار بالکل توڑ بیٹھے ہیں
جو رفتہ اور آئندہ کے پاٹوں میں نہیں پِستے
جو آزادی کے دریا کو سبھی سمتوں میں چلتا دیکھتے ہیں
جو کل کے شہر کو شعلے دکھا کر
نحوست سے بھرے زرموش کی بیماریاں سب تلف کر بیٹھے
وہاں سب ہی برابر ہیں
وہاں کوئی کسی کے حق کا غاصب ہو نہیں سکتا
محبت بو کے فصلیں روشنی کی کاٹتے ہیں
کہو، کیسی منوّر سی زمیں ہے،
جہاں پر چاہتوں کی باد رقصاں ہے
حسیں سپنوں کی وادی دیکھنے سے
ہمیں بولو تو آخِر کون روکے گا
یہ فطرت تو تخیّل کی دلہن ہے
اوراِس کی بیوگی اب ہم نہ دیکھیں گے
فقط ہم خواب دیکھیں گے

مرے آدرش کا سورج جہاں نکلا
وہ خِطّہ تو سدا اِک کاسئہ پسماندگی تھامے
زمانے سے ذرا سی تیز حرکت کی گدائی کو کھڑا ہے
میں اپنی بستیوں میں بچپنے سے
جہل اور غربت کو رقصاں دیکھتا آیا
کہیں سے دستِ نا معلوم پیادوں کو گھروں میں اور بازاروں میں ہر اِک پل نچاتا ہے
ازل سے اپنا لا یعنی سفر جاری و ساری ہے
یہاں پر کچھ بڑے ہیں
جو کہ بس بے حد بڑے ہیں
باقی سب کے سب ہی چھوٹے ہیں
یہاں بے معنی دنیا داریاں تقدیس کے مہنگے لبادوں میں سجا کر طاقچوں پر رکھی جاتی
ہیں
یہاں اشیاء سے الفت کی بہت تلقین ہوتی ہے
یہاں اِک دوسرے کے درمیاں کے فاصلوں کی وجہ
نامعلوم زور آور کی بے رحمانہ ضرورت ہے
یہاں انساں کو نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
مگر میں جو کئی نسلوں سے ایسی سرزمیں میں منزلوں کو ڈھونڈتا ہوں
نہیں مایوس بالکل بھی
مجھے تو کل بھی آنا ہے
خبر کیا دکھ کی ایسی یاترا سے جب بھی لوٹوں
مجھے معنی کے، سر افرازیوں کے اس سفر کا
سراغِ خفتہ مل جائے
عمل لفظوں کے جڑنے اور تڑنے کا حرارت خیز ہوتا ہے
مگر صرف اس قدر
کہ شب زارِمعانی میں کوئی چھوٹی سی شمع جل سکے
مرے اور میرے لفظوں کے حواس انمول ہیں
کہ ان میں جرأتِ انکار اور اقرار کی قوّت برابر ہے
یہ سچ کی رَو کو اپنے بیچ سے بہنے بھی دیتے ہیں،
ہماری روح میں گویا جڑوں کی طرح پھیلے ہیں
ہمارے نطق کی شاخوں سے پتوں کی طرح کھِلتے ہیں
جِن میں نصف سچّائی کی ہریالی دکھاتے ہیں
انہی لفظوں کی روشن اور انمٹ سی سیاہی سے
مرے اندر کے شاعر نے یہ ساری نظمیں لکھی ہیں

یاور ماجد
۲۰۰۲

وہ اور میں

Posted: 2011/06/26 by admin in منظوم دیباچہ

محترم انکل آفتاب اقبال شمیم کی کتاب زید سے مکالمہ کا دیباچہ جو انہوں نے خود لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کی ابتدا میں منظوم کیا

ہمارے دور کی اس نظم ِبے آخر کا یہ اِک اقتباس ِچند منظر ہے
کہ جس کی وجہِ پیدائش
کسی جغرافیے یا پھر کسی بھی خاص خطے سے کوئی ناطہ نہیں رکھتی
اگرچہ یہ ہمارے دور کی تہذیب کی جہتوں
ہمارے کنج ہائے ذہن کے پردہ سرائے نفس کے منظر دکھاتا ہے؛

یہ ایسی نظم ہے جو لمحہءِ موجود کی اصلیتوں کے خارج و داخل کے منظر
اور صدا کو پیش کرتی ہے
بجائے رزمیے کے المیے کی داستانِ خونچکاں تالیف کرتی ہے
ہمارے دور میں ابلیس یا سہراب جیسے سورما پیدا نہیں ہوتے
ہماری آنکھ سے تاریخ کے پردے اٹھے تو
ہم نے رومانی روّیوں کے گلستاں کو جلا کر راکھ کر ڈالا

ارسطو ہو یا رومی ہو
خدا ہو یا کہ پرمیشر ! ہماری ہی وراثت ہیں
کہ صدیوں کے عمل نے اور تو کچھ ہو نہ ہو
ہم کو شعور زِندگی بخشا ہے
ہم انسان کو خطوّں میں کیسے منقسم کر دیں
کہ ہم مرکز ہیں اور فطرت زمین اور زِندگی گویا ہمارے دائرے ہیں
پس ِآئینہ کیا معلوم جانے کیا حقیقت ہے

مگر تا حال تو صدیوں پہ پھیلے واقعوں کے موڑ ایسا ہی بتاتے ہیں
کہ انسان تاکراں حیرانیوں کے بحر میں کب سے
ہوائے صد زماں کے ان گنت سفاک اور ظالم تھپیڑوں میں ،
اکیلا زِندگی کی ناؤ پر بہتا رہا ہے !
بظاہر تیرگی کے بے سروپا اور نابینا سفر میں موت کے آگے اکیلا ہے !

ہزاروں مسئلے ہیں اور موجودات کا خود سے تصادم بھی
تو کیا اپنے تضادوں کے سفر میں ایک دن پامال ہو جائے گا؟
اِک بے جان عنصر کی طرح
صدہا عناصر کے ازل سے تابہ محشر تجربے کا حصہ ٹھیرے گا ؟
یا اپنے آپ سے ہی ماورا ہونے کا سوچے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

تو کیا پھر زِندگی اس سے بھی بڑھ کر افضل و اعلیٰ
کوئی مخلوق پیدا کر دکھائے گی ؟
ہمارا دائروں کا یہ سفر جاری رہے گا کیا ؟

مگر میں دیکھتا ہوں اشرف المخلوق میں امکان کے مثبت اشارے ہیں
کہ وہ خود سے بھی کچھ آگے نکل جائے

ذرا مڑ کر تو دیکھو!
بستیاں پامال کرنے والے وحشی سورما کا نام پاتے تھے ،
مگر اب ہم شعور زِندگی رکھتے ہیں ، ان کو قابل ِنفرت سمجھتے ہیں
وہ استبداد و استحصال جو کل تک ہمارا بے بدل مقسوم ٹھیرا تھا
ابھی بھی ہے
مگر اب سارے مظلوموں پہ یہ احساس حاوی ہے
کہ جور و جبر جو کل تک اٹل تھا
اور لازم تھا
اسے وہ ٹال سکتے ہیں
انہیں ہر حال میں اس کو مٹانا ہے
انہیں اب آدمیت کی نئی قدریں بنانا ہیں

ہمیں ادراک ہے
ان نشہ آور فلسفوں ، افیوں فروشوں کی ثقافت
کے پلے بیجوں سے صرف اِک عالمی نفرت کی پیلی فصل اگتی ہے
ہمیں خوابوں کے بافندے بنایا جا رہا تھا
ہم انہی کی لوریوں سے نیند کی وادی میں پہنچے تھے
مگر ہم جاگ اٹھے ہیں !

ہم اپنی نیم وا آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے مندر میں رکھی مورتی کی غیبی قوت مشتہر کرنے پہ آخر کون بیٹھا ہے

یہ ہم جو جبر کے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہیں !
ہماری گردنوں سے قطرہ قطرہ سرخ جیون بہہ رہا ہے
ہمیں ادارک ہوتا جا رہا ہے زور آور کی سیاست کا !
مفاد اس کا جو اس کے حکم کی تحریر بنتا ہے
وہی پھر نسل بعدِ نسل کی تقدیر بنتا ہے

یہ مانا اب حقیقت روشنی بن کر
ہماری سوچ پر افشا تو ہونے لگ پڑی
لیکن
حقیقت خود معمہ ہے !
یہ رومانی روّیہ تو بڑا آسان ہے شیشے کو گہری سانس
سے دھندلا کے جو چاہیں وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں !
یہ گہری سانس ظاہر میں کئی خوشیوں بھرے منظر دکھاتی ہے
تو باطن میں کئی پردے گراتی ہے
مگر ایسے عمل میں ہم نے یہ ادراک پا یا ہے !
کہ کوئی اخذ و حاصل آخر ی حاصل نہیں ہوتا
کوئی بھی فلسفہ حتمی نہیں ہوتا

یہ ہم فکر و تصور سے معانی کا جو تانا بانا بنتے تھے
کبھی بھی زِندگی کی جامعیت تک نہیں پہنچا
ہمارے اس عمل نے لاشعوری
اور شعوری فاصلوں کو اور زیادہ وسعتیں بخشیں
سزاؤں ، دھمکیوں ، پندو نصائح کی بٹی رسی کی جِنبش پر
ہمیں چلنا بھی آیا
اور ہم فطرت اکائی سے الگ ہوکر
کئی اشیا کی منڈی اور کلیسا کے سفر میں کھو گئے آخر

چلو آؤ ناں
سادہ اور آساں زِندگی کی راہ پر چل دیں !
سخاوت اور احساں ہی تو وہ انصاف ہے
جو زِندگی ہم سے طلب کرتی ہے
کیا ممکن نہیں ایسا کہ یہ انصاف کر کے نوع ِہستی کو بدل ڈالیں

نہیں !
یہ سب امکان کی حد میں ہے، کل کی دسترس میں ہے

میں ڈرتا ہوں !
میں اپنے ہی گریباں میں بھلا کیا جھانک کر دیکھوں
یہاں اب تک رفو کا بے تحاشا کام باقی ہے !

یہاں تو اب تلک شخصی حکومت چل رہی ہے
یہاں ابلاغ عامہ کا جو اسرافیل ہے
وہ جاگتوں کو بھی سلانے پر لگا ہے
یہاں انسان کو پیہم ہی نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
یہاں تو مرد نے
بے چاریوں کی ذمہ داری تک بھی جبراً پاس رکھی ہے
یہاں ایسا بھی طبقہ ہے
امیر شہر کو جو کج کلاہی کے سبھی تیور سکھاتا ہے
اسی طبقے کی حکمت اور حکومت اس جگہ موقع پرستی ، دوغلے پن کی
نہایت حوصلہ افزائی کرتی ہے

ثقافت جب کلیشے اور نابینائی کے سینچے ہوئے جذبات سے بنتی ہو
تو پائے گدائے لنگ کے مانند بے ساکھی پہ چلتی ہے
گدا کی خانقاہوں میں بڑی توسیع ہوتی ہے
یہاں آنکھوں کا بھینگا پن نہیں جاتا

یہاں ایذا پرستی ، دکھ اٹھانے کا تلذ ّذ کس طرح جائے
کہ یہ آزار تو ان کی وراثت ہے
یہ سب صدیوں کی تنبیہہ و سزا کے باوجود
اپنی وراثت کے نشے میں مست رہتے ہیں !

مری ساری امیدوں کا
مگر !
محور یہی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہی ہیں وہ جو اس کے دِل میں کانٹے کی طرح چبھہ کر
اسے وحشت دلاتے ہیں
میں خود بھی اس قبیلے میں بصد اعزاز شامل ہوں
میں اپنی زِندگی کے آئینہ خانے میں
عکسوں کے عجب الجھاؤ میں رہتا ہوں
یہ تاریخ کیا ہے
یہ عناصر اور وقت اپنی حقیقت میں بھلا کیسی قیامت ہیں
میں اس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں
جو دور صدزماں سے بے تغیر چل رہا ہے

اسی انبوہ کا اِک فرد ہے
جو مجھ میں بیٹھا میرے نوحے میرے نالے سن رہا ہے
اور جو فطرت میں باہر میرے اندرہے
اسی کا عکس ہوں شاید !
ثمر ہوں ایسی مٹی کا جسے دھوپوں نے گرمی میں پکایا ہو !
میں اس تاریخ کا ننھا خلاصہ ہوں
جو ناپختہ ارادے ، سوچ کی محدودیت ، لا انتہا خواہش ، گھنی گہری
جبلت کے الجھتے اور ملتے واقعوں سے بنتی رہتی ہے

مرے اندر شکستوں کے گھنے سائے ہیں
امکانوں کے جھلمل بھی !
میں اپنے آپ سے کچھ مطمئن ہوں
مضطرب بھی ہوں !
میں ندی کی روانی ہوں
کناروں کا ہوں ٹھیراؤ !
میں حسن اور زِندگی سے بے تحاشا پیار کرتا ہوں

،،مجھے خود سے مکمل اجِنبیت ہے،،

میں اپنے دِل کی تنہائی میں اکثر زید سے ملتا ہوں
اپنے سچ سے ملتا ہو ں!

میں اس سے گفتگو کرتا ہوں اکثر ! لیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یک طرفہ !
وہ میرے سامنے ہے اور مری پہچان سے باہر بھی رہتا ہے
اسے پہچانوں تو کیسے ! کہ میری آنکھیں گھائل ہیں
،،وہ اور میں،، زِندگی کے دو اہم کردار ہیں
جو دور اِک دوسرے سے لفظ و معنی کی رسائی میں
جو چاہیں بھی تو شاید مل نہیں سکتے
وہ میرا اور میں اس کا کبھی محرم نہیں ٹھیرے

وہ میری پوری سچّائی ہے
اور میں آدمی کے اصل کی آدھی صداقت ہوں!
کہ میں صدیوں سے اس سے گفتگو میں گم ہوں
اور یہ گفتگو ایسی جو یک طرفہ رواں ہے

مرا ایمان ہے اگلے جِنم بھی جب میں آؤں گا
مری اور زید کی یہ گفتگو دائم رواں ریگ ِفرات ِتشنگی پر چل رہی ہوگی

 

یاور ماجد

جون ۱۹۹۳

بالِشتیے

Posted: 2010/10/09 by ymaajed in نظم, اردو شاعری

 
کُرسیوں پر
میز کے چاروں طرف
بیٹھے ہوئے بالِشتیے
 
سگرٹیں سُلگائے
اپنی عینکوں کے
ملگجے شیشوں سے
اِک دُوجے کو تکتے
چائے کی چینک سے
کپ میں چُسکیاں بھرتے ہوئے
 
اور چھلکتی چائے کپ سے چاٹ کر
ڈونگرے برسا رہے ہیں داد کے اک بات پر
 
اور زیرِ لب سرگوشیوں میں گالیاں بھی بڑبڑاتے جا رہے ہیں
 
اِن کے اک اک حرف، اک اک بات میں ایقان ہے
۔۔۔۔اور ایسا اندھا اعتماد
جیسے دُنیاؤں کے خالق نے
انہی کے مشورے سے
زندگی ترتیب دی
 
گالیوں کے، داد کے اور قہقہوں کے دور میں
چائے کے کپ میں اٹھے طوفاں کے بڑھتے شور میں
 
لے کے اپنے ہاتھوں میں عدسے مُقَعِّر،
پِنڈلیوں سے بانس باندھے
اپنا اپنا قد چھپا کر
سب کی پَستہ قامتی کو ماپتے بالِشتیے
 
اونچی آوازوں میں پورے زور سے
بات ہر اک دوسرے کی کاٹتے بالِشتیے
چائے کے کپ چاٹتے بالِشتیے

اکتوبر٣، ٢٠٠٩

یاور ماجد

 

baalishtiye

 

Yawar Maajed

kursiyoN par
mez ke chaaroN taraf
baiThe huye baalishtiye
 
sigrateN sulgaaye
apni ainakoN ke
malgaje sheeshoN se
ik dooje ko takte
chaaye ki chainak se
cup meN chuskiyaaN bharte huye
aur chalakti chaaye kap se chaaT kar
DoNgre barsaa rahe haiN daad ke ik baat par
 
aur zer-e-lab sargoshiyoN meN gaaliyaN bhi baRbaRaate jaa rahe haiN
 
un ke ik ik harf
ik ik baat meN
……… eeqaan hai
……… aur ik andha aetamaad
jaise dunioyaaoN ke KHaaliq ne
inhi ke mashvare se
zindagi tarteeb di
 
gaaliyoN ke, daad ke aur qehqahoN ke daur meN
chaaye ke kap meN uThe toofaaN ke baRhte shor meN
 
uTTh paRe haiN apne hhaathoN meN liye adse muqa’ar
pinDliyoN se baaNs baaNdhe
apna apna qad chhupa kar
sab ki pasta qaamati ko maapte baalishtiye
 
ooNchi aavaazoN meN poore zaur se
baat har ik doosre ki kaaTte baalishtiye
chaaye ke kap chaaTte baalishtiye

 

October 3, 2009 

Pygmies
 

English Translation by

Dr. Kamran Haider

 
Residing the chairs
In all corners of the table
 
Smoking cigarettes
Peeping through the haze
Of myopic lenses
Hardly making an eye contact
Pouring tea in cups
Then sipping with a resonance
 
Licking the spilled over chocolaty drops of tea
From the lips of rusty cups
Ridiculously putting their hands together
At a note merely uttered for appraisal
 
— muttering filth and gossiping dirt
 
Each single word of their rambling talk
Has nothing but conclusive conviction
And absolute confidence
As if the creator of this universe
called for their advice
while fabricating life
 
In span of the fake applauds, filthy puns and glittery giggles
In bang of the rising storm within the hearts of empty mugs
 
Holding convex lenses in their tiny hands
Measuring shortness of others’ stature
Lengthening their own height
With affixed bamboos at thighs
Stood up from chairs
Raised all together
The pygmies
 
Screaming at full volume
Cutting at others’ talking tongue
Licking the vacuity of tea cups
The tiny-little pygmies

 



  •  
    8 people like this.
    • Kamran Haider Bukhari That is a lovely piece of poetry Yawar Bhai… I enjoyed reading it again and again while translating… And please don’t say that I have done any great job… The thought and the imagery is purely yours and surely it is a wonderful piece of poetry… Thanks for honoring me and giving me a chance to translate this great poem…
      October 10, 2009 at 7:33am
    • یاور ماجد Thanks for kind words Kamran Sahib.
      October 10, 2009 at 8:46am
    • Aazim Kohli khoob hai Yawar Sahib…..waah.
      October 10, 2009 at 9:46am
    • Muhammad Waris خوبصورت نظم ہے یاور صاحب، بہت اچھا خیال ہے اور الفاظ کا چناؤ ان کا اظہار متاثر کن، آپ کا مشاہدہ بھی قابلِ داد ہے۔ لاجواب
      October 10, 2009 at 10:36am
    • واہ واہ یاور سبحان اللہ
      میرے ذاتی خیال میں جہاں بات ٹوٹتی محسوس ہوتی ہے وہی اس کا حسن ہے ایک منٹل پاز ملتا ہے اور پھر بات شروع ہوتی ہے ایسی مثال تو مجید امجد آفتاب اقبال شمیم اور ن میم راشد ہی کے یہاں ملتی ہے۔ آپ کو اس طرح اس تکنک کو برتت…ے دیکھ کر خوشی ہوئی۔۔۔۔۔ ع ۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہSee More
      October 10, 2009 at 10:53am · 1 personLoading…
    • یاور ماجد طلعت جی، درست فرمایا، کامران صاحب سے میری دوستی چند ہفتوں کی ہی ہے اور ان کا انگریزی زبان پر عبور قابلِ رشک ہے، ان کی انگریزی نظمیں بہت ہی جاندار اور خوبصورت ہیں، کبھی وقت ملے تو ضرور پڑھئے گا
      October 10, 2009 at 11:45am
    • kya kehne yaavar maajid saaHib.aap ne aek
      mushaa’hide aur us se paidaa hone vaale Ghus’se ko
      jis taraH nazm ke zaabete meN Dhaalaa he voh
      laa’iq e teHsiin he.yeh tasviir kaa aek ruKh he,yeh
      muAshere ke jis tabqe ki tasviir he us ki maHruumiyaa…N
      use isi taraH ki jhuNjhlaahaT aur munaafiqat meN
      mubtilaa kar deti heN.maiN ne jo ise tasviir kaa aek
      ruKh kahaa tau is se muraad yeh thi k aek nazm
      saaqi faaruuqi ki bhi he isi mauzuu par jo duusre
      tabqe (baa ikhtiyaar,baalaa dast)ki he.
      "aek baRe se ghar ke aek baRe se kamre meN
      jamA huye kuchh chhoTe chhoTe laug”
      yeh nazm saaqi ki kulliyaat”zindah paani sachhaa”
      meN,kahiiN se muyaasar aa jaaye tau zuruur
      paRhiye gaa.
      bahar Haal aap ki nazm ki ahamiyat se inkaar mumkin
      nahiiN.allah aap ko Khush rakhe.See More
      October 10, 2009 at 2:29pm
    • Azm Behzad kaamraan saaHib ke liye alag se daad,
      maashaa allah aNgrezi par baRi qudrat rakhte heN.
      kabhi in se kisi Ghazal kaa tarjumah karne ki
      darKhuaast kareN ge:-)
      October 10, 2009 at 2:34pm
    • kia kehney yawar bhaii bohut zabardast nazm hy apney andar tamaam tar sachchaii liye ..apney haal sey ghafil aisey kirdaroN sey aik sachchey fankaar ka mutanaffir hona aik fitree amar hy itni bebaaki sey itni umda nazm takhlique karney dili… daad qabool keejiye.
      wassalam
      fabSee More
      October 10, 2009 at 5:17pm
    • یاور ماجد شکریہ فیض بھائی، ، بالشتیے ہر جگہ ، ہر کونے میں اور ہر شعبے میں موجود ہیں، میں نے سوچا آج تک ان کے اعزاز میں کچھ لکھا نہیں گیا تو چلو دو چار سطریں لکھ دیتے ہیں، کیا یاد کریں گے
      🙂
      October 10, 2009 at 5:43pm
    • Majeed Akhtar could not hold till monday for commenting, I hv borrowed my son’s laptop. Amazing Yawar, superb observation. balishtiyoN ke e’zaz maiN ye nashist shandar hay…..humaray khokhlay pan par ek gehra tanz. DhairoN dad bhai khush raho……also Kamran has done a great job. GEO …..
      October 10, 2009 at 8:30pm
    • یاور ماجد مجید صاحب، آپ کا حسنِ نظر ہے اور ان الفاظ میں داد سے زیادہ آپ کی پدرانہ شفقت بول رہی ہے۔

      ڈھیروں آداب اور احترام آپ کی نذر

      October 10, 2009 at 8:36pm
    • Wasi Hasan yawar,main nay yay ap ki pahli takhleeq parhi hay aur mojhay kahnay deejyay kay main bohat mutasir hoowa,is nazm ka craft is qadar acha hay kay dad deeyay baghair naheen raha jasakta.doosray presentation kay nazm ko urdu roman aur english main paish kar diya taakay kisi ko praishani na ho….achi takhleeq per mubarakbaad
      October 10, 2009 at 10:34pm
    • یاور ماجد وصی صاحب، پسندیدگی کا بے حد شکریہ
      October 10, 2009 at 10:46pm
    • بہت اچھی نظم ہے یاور۔ مبارک ہو۔ اس قسم کی نظم کے لئے نثری نظم کا روپ ہی بہتر تھا۔ الفاظ کا انتخاب بھی بہت اچھا ہے، مثلاً پیالی کی جگہ کپ، کہ کپ میں طوفان ہی انگریزی کا محاورہ ہے۔ البتہ
      عدسے مُقَعِّر
      اس بیانبیے میں فۓٹ نہیں ہوتا۔ اور فلناز کی… بات سے میں متفق ہوں کہ "سرگوشیوں میں گالیاں بڑبڑانا” کچھ بوجھل سا لگتا ہے۔See More
      October 11, 2009 at 12:21am
    • Mahar Safdar Ali Yawar Sahib keya khoob app nay tasweer kashee kee hay Barree soch kay malik chotay loogoon kee
      October 11, 2009 at 2:50am
    • یاور ماجد اعجاز صاحب معافی چاہتا ہوں، یہ نظم نثری نظم نہیں، آزاد نظم ہے، نثری نظم اور آزاد نظم میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے
      توصیفی الفاظ کے لئے شکریہ
      October 11, 2009 at 6:18am
    • یاور ماجد شکریہ صفدر صاحب
      October 11, 2009 at 6:19am
    • اعجاز عبید اوہو یاور، معذرت، میری غلطی کہ میں اسے نثری نظم سمجھا۔ اور اس پر غور نہیں کیا کہ مجھ کو تو نثری نظمیں پسند نہیں آتیں، یہ کیوں آئی؟
      October 11, 2009 at 11:34am
    • Zafar Khan بہت اچھی نظم ہے جناب۔ نثری نظم کا نام ایسا ہے کہ جسے انگریزی میں
      oxymoron
      کہتے ہیں۔یعنی دو متضاد الفاظ کا مجموعہ۔
      October 11, 2009 at 12:46pm
    • Hammad Niazi SUBHAN ALLAH SUBHAN ALLAH BHAI KIA KEHNAY AAPKI PEHLI TAKHLEEQ NAZAR SA GUZRI AUR BOHAT KHUSHGOWAAR TASUR CHOR RAI HA MUJH PAR FB PE AIK AUR ACHAY SHAIR KI NAVEED HO AAP
      MERI TRAF SA WELCOME BHI AUR DAAD BHI
      ALLAH HUMA ZID FA ZID
      October 11, 2009 at 11:00pm
    • Yawar Bhai! Aap sa kia khoob ta’aruf huwa hai. Pehli hi mulaqat mein dil ko chho lia aap na aur aap ki nazm na. Ehbab na buht khoob tabsara kia nazm per. Mery khayal mein yeh nazm humare muashra mein barp ahone wali her mehfil ki akkaas ha…i chahe woh adabi tanqeedi mehfil ho, dodton ki nijji mahafil hun, assembly session ho, mohalla ka tharray ki mehfil ho, ya so called ‘panchayet’ ho…yeh nazm her mehfil ka ehata karti hai……kion keh ‘baalishtiye’ har mehfil mein na sirf maujood hote hein balke ghalib hote hein. Mein zati taur per azad nazm mein tasalsul ko torne ka haq mein nahin hun. Rawani aur bahao ko azad nazm ki bari khoobi samajhta hun.See More
      October 12, 2009 at 1:28am
    • Arif Imam خوبصورت نظم ہے۔ سلامت رہیئے، احمد صفی صاحب نے بجاارشاد فرمایا۔
      October 12, 2009 at 6:26am
    • حماد صاحب، امجد صاحب اور عارف صاحب، آپ سب کا بے حد شکریہ، آپ کے توصیفی کلمات میرے لئے ایک اعزاز ہیں۔ امجد صاحب، روانی اور بہاؤ کی بات آپ نے درست کی، یہ میرے نزدیک بھی ایک بڑی خوبی ہے اور پابند نظم میں بھی روانی اور بہاؤ کم و بیش اتنا… ہی ہوتا ہے جتنا کہ آزاد نظم میں، جہاں فرق آتا ہے، وہ یہ ہے کہ آزاد نظم لکھتے ہوئے یہ شاعر کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ قاری کو کس جگہ روکے اور کہاں اسے روانی دے کر ایک منظر یا ایک خیال کی اکائی ہونے کا احساس دلائے۔ اوپر کے مصرعوں میں بالشتیوں کی حالت بیان کرنے کے بعد تسلسل توڑنے کے مقصد یہی تھا کہ ان کے منافقانہ رویئے کو الگ کر کے دکھایا جائے۔

      امید ہے آپ لوگوں کی رہنمائی میسر رہے گی اور یہ نئی دوستیاں ایک عمر تک چلیں گی

      یاورSee More

      October 12, 2009 at 9:09am
    • Noshi Gilani Khubsurat manzar.nama hai…..
      October 12, 2009 at 9:33pm
    • Rehana Qamar kia kehne
      October 14, 2009 at 1:00am
    • Zakir Hussain Ziai subhaanALLAH kya Tawaana Or Khoobsurat Andaaz Hae Aap Ka Keh Alfaaz Aap key Saamney Raqss Kartey Huey Mahsoos Ho Rahey Hain Nazzm Mein..
      Bharpoor Daad O Tahseen Aap Key Lieay…
      October 24, 2009 at 12:03pm
    • Kashif Haider بہت عمدہ نظم ہے یاور بھائی خوش رہیں
      November 11, 2009 at 1:26pm
    • Zafar Khan Very well crafted poem Yawar.
      November 11, 2009 at 1:29pm
    • Saud Usmani واہ یاور بہت مختلف نظم ہے۔۔۔
      November 11, 2009 at 2:09pm
    • یاور بھائی بہت خوب۔ بہت گفتگو ہوچکی اس نظم پر، مگر میں صرف ایک پہلو کو ذرا سا اور بڑھانا چاہوں گا جس کی طرف گلناز صاحبہ نے اشارہ کیا ہے۔ میرے نزدیک اس نظم کے مخاطب ہی انٹیلیکچوئل طبقے کے لوگ ہیں۔ وہ لوگ جن کی فکر اور جن کے کام سے معاشرے پر …اثر پڑ سکتا ہے۔
      بہت سالوں پہلے میں نے ڈینا گویا کے مضمون
      "Who killed poetry”
      کا ترجمہ کیا تھا جو ادبی جریدے سیپ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کا بنیادی خیال یہ تھا کہ آج کا شاعر ایک ذیلی معاشرے یعنی
      میں رہتا ہے، جس کا معاشرے کے عمومی دھارےsub-culture
      سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سب کلچر میں شاعر لکھتا ہے، دوسرے شاعروں کو اپنی شاعری سناتا ہے، اسی سب کلچر میں حیثیتیں طے ہوتی ہیں، اسی میں شاعر کے اچھا برا ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، اور ان تمام باتوں کا کوئی بھی اثر نہ معاشرے پر پڑتا ہے، نہ شاعر کو اس سے غرض ہوتی ہے۔ مصنف کا خیال یہ تھا
      کہ جب تک شاعر عام آدمی تک اس کے منتخب کردہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے رسائی نہیں حاصل نہیں کرے گا، اس وقت تک ادب کو معاشرے میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس نہیں ملے گا۔
      آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان کتاب نہیں خریدتے، مگر انٹرنیٹ پر شاعری پڑھتے ہیں۔ آڈیو بکس کا رواج آئی پوڈ اور ایم پی تھری پلیئرز کے آنے کے بعد عام ہوتا جارہا ہے۔
      یہ ہم سب کے لیے سوچنے کا مواد فراہم کرتا ہے۔ کیا میر، غالب اور مومن کی شاعری آڈیو بکس کی صورت میں لائی جائے تو اسے نوجوان سنیں گے؟ کیا شعری مجموعہ اب کتاب کے بجائے سی ڈی کی صورت میں سامنے آنا چاہیئے؟
      ان میں سے کوئی بھی بات انقلابی نہیں، مگر میرا خیال ہے کہ اب بھی ادبی حلقوں میں اس بات کو عجیب سے انداز سے دیکھا جاتا ہے کہ کسی شاعر کی ویب سائٹ ہو، یا آڈیو بک سامنے آئے، اور اسے قبول عام حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اب بدلنا چاہیئے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ کمیونیکیشن اب ایک مختلف شکل اخیتیار کرتی جارہی ہے، اور جب تک اسے قبول کرکے ہم اپنے ادبی ورثہ کو آج کے میڈیا میں منتقل نہیں کریں گے، آنے والی نسل کو اس سے بے بہرہ رہنے سے کوئی نہ بچا پائے گا۔
      آخر میں ایک تجربہ جو خاصا تازہ ہے۔ کراچی میں دی سیکنڈ فلور کے نام سے ایک کافی ہاوس کھلا، جس کی انتظامیہ سے میرے مراسم تھے۔ وہاں آنے والے لوگوں میں اکثریت ان نوجوانوں کی تھی جو اردو ٹھیک سے پڑھ لکھ نہیں سکتے اور انگریزی ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہم نے وہاں پر ادبی پروگرامز منعقد کیے، اور حال یہ ہوگیا کہ بعض اوقات دروازہ اس لیے کھلا رکھنا پڑتا تھا کہ اندر لوگوں کے لیے گنجائش ختم ہوجاتی تھی۔ وہاں غالب کی شاعری بھی پڑھی گئی، یوسفی صاحب کے مضامین بھی، اور جون ایلیا کی سالگرہ بھی منائی گئی۔ نتیجہ یہ کہ ہمیں اردو کی باقاعدہ کلاسز کا انعقاد کرنا پڑا کیونکہ وہاں آنے والے لڑکے لڑکیوں کو اردو ادب کی چاشنی نے مبہوت کر دیا تھا۔ ٹھیک ہے کہ وہ داد واہ کے کہہ WOW! بجائے
      کر دیتے ہیں، مگر آپ اس پر اصرار کرنے کے بجائے کہ وہ روز اول سے ادبی روایات اور محفلوں کے آداب سیکھ لیں، ان کو قریب آنے دیں۔ جاننے دیں کہ اردو کیا ہوتی ہے۔ مت ناراض ہوں اگر انھیں غزل اور نظم کا فرق نہیں معلوم۔
      جب تک ہم اہل ادب ان باتوں پر سنجیدگی سے سوچنا شروع نہیں کریں گے،
      Who killed poetry
      جیسے سوال کی تلوار ہمارے سروں پر لٹکتی رہے گی۔

      میں فیس بک کی ان محفلوں کو درست سمت میں ایک قدم تصور کرتا ہوں۔ یہاں ہمارے درمیان ایسے شعرائے کرام موجود ہیں، جن کی ادبی حیثیت مسلمہ ہے۔ ان کا یہاں ہونا اس بات کا اعلان ہے کہ conscious effort اب تبدیلی آرہی ہے۔ صرف اسے ایک
      میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

      طول کلام کے لیے سب سے معذرت۔See More

      November 12, 2009 at 7:39am · 1 personKhalid Malik Sahil likes this.
    • عرفان صاحب، ہمیشہ کہی طرح آپ کے اندازِ فکر نے متاثر کیا ۔ آپ کی بات سے قطعی طور پر اختلاف نہیں کیا جا سکتا، نیا زمانہ، خصوصاً پچھلے پندرہ سالوں میں دنیا کمپیوٹراور انٹرنیٹ کی وجہ سے اتنی آگے نکل گئی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ قدم ملانا مشکل ہ…وتا جا رہا ہے، اگر مغربی فنون اور مغربی ثقافت نئی نسل میں زیادہ مقبول ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہماری ثقافت فنی پسماندگی کا شکار ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ نئے زمانے کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے سے قاصر رہے ہیں۔
      اگر ہم کسی شاعر کی ویب سائٹ دیکھتے ہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے، اگر کوئی اپنی شاعری آڈیو بکس کی صورت میں یا پی ڈی ایف کی صورت میں سامنے لاتا ہے تو اس کی بھی پذیرائی ہونی چاہیئے، جہاں تک اعتراض کرنے والوں کا تعلق ہے تو اس طرح کے لوگوں نے تو ساحر، فراز اور فیض جیسے شاعروں تک کو شاعر ہی نہیں تسلیم کیا کیونکہ یہ شعراء عام لوگوں میں مقبولیت کے اس درجے تک جا پہنچے تھے جہاں معترضین باوجود خواہش کے خود کبھی نہیں پہنچ پائے یا سرے سے پہنچنے کی صلاحیت سے ہی محروم تھے

      میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگلی نسلوں میں مجھے شاعری، ادب اور دوسرے فنونِ لطیفہ کی قبولیت کے بے پناہ امکانات نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ نسلیں اطلاعاتی نظام سے میری اور آپ کی نسل کے مقابلے میں بہت زیادہ جڑی ہوئی ہیں،
      میں بھی آپ کا ہم آواز ہوں اور یہی کہوں گا کہ فیس بک کا یہ فورم اپنے اندر بے پناہ امکانات لئے ہوئے ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں مزید شعوری کوشش کا کوئی لائحہءعمل ہے تو بتائیں، میرا خیال ہے ہم سب ہی اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کے لئے نہ صرف تیار ہیں بلکہ ایسا کام کر کے ہم سب کو بہت خوشی ہو گی۔
      یاور
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      edited to fix a few typing errorsSee More

      November 12, 2009 at 9:10am
    • Marvi Sirmed واہ یاور صاحب، بہت خوب۔ بہت ہی خوبصورت انداز میں آپ نے ان لوگوں کا تضاد بیان کر دیا جنہیں میں ہمیشہ فکری طوائفیں کہا کرتی ہوں۔ آج کل یہ فکری طواِفیں خاصے اوج پر ہیں۔ مہلوم نہیں ان کا حسنٖ کرشمہ ساز، اب کہ کیا رنگ لائے! آپ کا شکریہ کہ یہ خوبصورت نظم آپ نے ہماری دیوار پر چسپاں کی۔
      December 18, 2009 at 11:50pm
    • شکریہ ماروی جی، آپ کا پروفائل اور آپ کا بلاگ دیکھا، بہت خوشی ہوئی دیکھ کر اور یہ جان کر کہ آپ جیسے روشن دماغ لوگ آج بھی ہمارے تنگ نظر معاشرے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اس معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں بھی لگے ہوئے ہیں، آپ کی محنتوں… کا پھل ہم لوگوں کی آنے والی نسلیں کھائیں گی، اور سفر پر رواں یہ کشتی ایک نہ ایک دن اپنی منزل ضرور پائے گی۔
      میرے جیسے تو کب کے وہاں سے بھگوڑے بن کر دیارِ غیر میں خاک چھانتے پھر رہے ہیںSee More
      December 19, 2009 at 9:10am
    • Iqbal Khawar ye nazm abhi nazar say guzri ….kamal ki nazm hay yawar mubarak baad qubol karo peyaray bhai..
      January 2 at 7:59am
    • Faizan Abrar واہ جناب کیا زبردست اور کیا جاندار طریقے سے جذبوں کا اظہار کیا ہے۔۔۔ واقعی ایک بھر پور نظم ۔۔۔ بہت سی داد میری جانب سے بھی حاضر ہے۔
      January 12 at 8:44am
    • Qaisar Masood yawer apki nazm ap kay mushahiday or artistic approach ki bhar poor akkas hai..nazm ki manzar nigari qari kay samnay balishtiyoon ki mehfil ka naqsha kheench deti hai…bila shuba har lehaaz say ek jadeed nazm hia…nazm par jandaar tabsray parh k boht lutf uthaya hai mian nay..thanx..jeetay rahian..
      November 30 at 2:31pm
    • یاور ماجد شکریہ قیصر
      November 30 at 3:39pm
    • Naveed Abbas bht khoob jinab.. is mushahidy ko kya he umdgi aor asani k sath nasri nazm mein jis andaz se bian kia he bht he umda hy…. iqbal sajid marhoom ka she yad a gaya tha…. khush rahye jinab shareek krny ka shukria
      November 30 at 3:53pm
    • یاور ماجد نوید بھائی، نظم نثری ہرگز نہیں۔۔ آزاد نظم ہے ۔۔ اقبال ساجد کا شعر ضرور شیئر کریں، توصیفی الفاظ کے لئے مشکور ہوں
      November 30 at 3:54pm
    • eijaz ubaid sahab ki tarah main bhi ghalat samjha… mazrat chahoon ga… abhi dobara ghor se parhi he nazm…. again sorry
      iqbal sajid ka shir zaroor share karoon ga …. us sher k yad any mein tea ka bht amal dakhl he.main bhool raha hn ki…tab daikh kar share karon ga Insha AllaSee More
      November 30 at 4:02pm
    • Kashif Javed MASHAALLAH very nice poetry ,really bohat khoob.
      December 1 at 12:01am
    • Khalid Malik Sahil ماجد صاحب،بیشک بہت اچھی نظم ہے،تین مرتبہ پڑھی اور مزا لیے،خیر ہو
      December 1 at 12:23am
  • ہمیں مجرم نہیں کہنا

    Posted: 2010/10/01 by ymaajed in نظم

    ہمیں مجرم نہیں کہنا

     یاور ماجد

     وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں
    انہی میں گم کہیں لمحوں کے، برسوں اور صدیوں کے گماں ہیں

    یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جارہے تھے
    ہمارا خواب تھا !
    ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے !
    مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے آئے

    یہ ہم جو خواب کے دریا سے اِک جھرنا۔۔۔
    بس اِک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے
    جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے
    مگر جانے کہاں سے لوُ کاہم طوفان لے آئے

    کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سر خیاں دیکھیں
    تو ہم اس سمت کو لپکے
    مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا
    کہ ہم چہرے پہ زردی اور پیلاہٹ لپیٹے لوٹ آئے

    وہی ہیں فاصلے قدموں کے منزل سے
    وہی ہے راکھ چہرے پر،
    وہی لوُ کے تھپیڑے ہیں
    وہی زردی میں لپٹی نیم وا آنکھیں
    شکستہ دِل میں تھوڑا اور جی لینے کی خواہش بھی
    مگر عمرِ معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے

    یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
    مگر ایسا نہیں کرنا
    ہمیں مجرم نہیں کہنا
    کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

    خدایا!!۔
    ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔
    ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے

     جولائی ١٩٩٣

  • 11 people like this.
    • Shoaib Afzaal

      یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے

      مگر ایسا نہیں کرنا

      ہمیں مجرم نہیں کہنا

      کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

      خدایا!!۔

      ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔

      ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے

      یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے

      مگر ایسا نہیں کرنا

      ہمیں مجرم نہیں کہنا

      کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

      خدایا!!۔

      ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔

      ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہےSee More

      October 2 at 4:45am
    • Khushbir Singh Shaad bahut khoob janab

      October 2 at 8:37am
    • Zakir Hussain Ziai

      یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
      مگر ایسا نہیں کرنا
      ہمیں مجرم نہیں کہنا
      کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

      …خدایا!!۔
      ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔
      ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے

      آپ کی نظم آج کے دور کی مکمل تصوير ہے،اچھی تخليق زمانے کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے ،يہ نظم اس بات کا بيّن ثبوت ہےSee More

      October 2 at 8:44am
    • Hasan Abbas Raza Shabaash , bohat achhi nazm hey

      October 2 at 8:53am
    • یاور ماجد شکریہ شعیب صاحب، خوشبیر صاحب، محترم ذاکر اور محترم حسن صاحب۔

      October 2 at 10:52am
    • Qayyum Khosa Bahut khoob Janab!!!!

      October 2 at 12:51pm
    • Qaisar Masood BOHT ACHAY YAWER

      October 2 at 2:48pm
    • Masood Quazi یاور ماجد صاحب طویل عرصہ بعد آپ کا کلام نصیب ہوا ماشاللہ بہت خوبصورت اور شاہکار نظم ھے مبارک

      October 2 at 3:25pm
    • Faiz Alam Babar kia barjastagi hy kia rawani hy kia khoobsoorat manzar kashi hy kia bat hy yawar bhi bhot aala bhai bhot aala ,

      October 2 at 5:03pm
    • یاور ماجد ارے فیض یار، کیوں شرمندہ کرتے ہیں، بہت محبت آپ کی۔ قیّوم صاحب، قیصر صاحب اور محترم مسعود صاحب، بہت نوازش۔

      October 2 at 10:21pm
    • Wasi Hasan yawar..kia achi nazm hay aur khasoosan punch line kay khudaya
      ab hamain tari gawahi ki zaroorat hay…maza agaya

      October 3 at 12:28am
    • Kamran Haider Bukhari We are surely in need of such poetry…

      Keep up the good work Yawar Bhai… !!!

      October 3 at 1:46am
    • Imran Jaffer

      Kia Kehnay Yawar Bhai, Totay Howay Aur Bikhray Howay Khwaboon ko Ahsan Tareeqay say Aap Ny Yakja Kia hy Aur Khoobsourat Larri Mein Peero Ker Nazm Ka Roop Diya Hy, Es Kar-e-Mahaal Ko Anjaam Denay Per Aap Sataish aur Mubarikbaad K Haqdaar hei…n.
      Meri Teraf Say Bohat Si Daad, Mubarik Aur Duaein Aap k Lea.
      Salamat Rahein.See More
      October 3 at 7:21am
    • Muhammad Waris بہت خوب یاور صاحب

      October 3 at 9:44am
    • Majeed Akhtar

      مگر ایسا نہیں کرنا
      ہمیں مجرم نہیں کہنا
      کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

      Yawar: Bohot bharpoor nazm hay. apnai bunat maiN bohot rawaN aur content maiN lajawab. Ajkal jitni bay rabt aur mohmal nazmaiN log bag likha kartay haiN un… maiN yeh ek chamakdar, bamaqsad aur paRhnay maiN bohot dilchasp nazm samnay aee hay jisay bar bar paRhkar lutf liya ja sakta hay. DhairoN dad aur dua’iN apke liye.See More

      October 3 at 12:26pm
    • یاور ماجد شکریہ وصی صاحب، کامران بھائی، عمران اور وارث بھائی اور مجید صاحب۔

      October 3 at 2:24pm
    • Qudsia Nadeem Laly behtareen…

      October 3 at 3:42pm
    • یاور ماجد شکریہ لالی جی، آپ نے نظم پڑھی اور پسند کی

      October 3 at 4:19pm
    • یاور ماجد یہ نظم سترہ اٹھارہ سال پہلے اس وقت کی نظم ہے جب جذبات ہر چیز پر مقدم اور حاوی ہوتے تھے، ایسا اس نظم کے مصرعوں، اور ان میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی کافی حد تک واضح ہو رہا ہے، سوچا کہ احباب کی خدمت میں پیش کی جائے ، ہو سکتا ہے کوئی پڑھنے والا بھی ایسے ہی حالات سے گزر رہا ہو اور اسے بھی یہ نظم اپنے دل کی آواز کی طرح محسوس ہو۔

      October 3 at 4:26pm
    • Annie Akhter buhat khoob, , khush raheay.

      October 3 at 6:59pm
    • Ahmad Safi مجھے یاد ہے پرسوں پہلے جب یہ نظم تم نے مجھے بذریعہ ڈاک بھیجی تھی۔۔۔ اس کا اثر ویسا ہی تازہ تھا ۔۔۔ حتیٰ کہ سالِ گذشتہ میں تمھارے گھر پر یہ نظم تمھاری زبان سے سنی۔۔۔ اس کا اثر ذہن و دل سے محو نہیں ہو سکتا۔۔۔ جس کیفیت میں یہ ڈوب کر لکھی گئی ہے اسے اظہار کے پیرائے میں ڈھالنا بہت مشکل ہے۔۔۔ مزے کی بات یہ کہ وہی ٹین ایجر آج بھی اتی ہی جاذب توجہ شاعری کر رہا ہے۔۔۔ جیو، خوش رہو۔

      October 4 at 3:57am
    • Ali Zubair

      یاور کئی روز پہلے نظم پڑھی اس وقت بوجوہ تبصرہ نہ کرسکا۔
      نظم اپنی چست بنت، اپنے عنوان، اپنے حسن۔ صوت،اپنے بے پناہ اظہار میں یکتا ہے۔۔۔
      آخری سات مصرع تو کمال ہیں پیارے صاحب، یہی شاعری ہے اور یہی نظم ہے اور یہی جدت ہے۔۔۔
      بہت خوش رہو
      البتہ اس ب…ھرپور نظم کی قدامت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ان سترہ سالوں میں یاور ماجد نے کتنا سفر طے کیا ہے
      یہ نظم کسی طور آج کے یاور ماجد سے کم تر نہیں
      شریک کرنے کا شکریہ پیارے صاحبSee More
      October 5 at 1:31pm
    •  بہت خوب یاور صاحب۔عمدہ نظم ہے۔ اور آپ بےشک مجھے نہ ٹیگ کریں میں کسی نہ کسی طرح آپکے نوٹس تک پہنچ ہی جاوں گا۔
      :)))

      October 5 at 2:08pm
  • بوجھ

    Posted: 2010/01/11 by ymaajed in نظم

    بوجھ

    یاور ماجد

    یہ میں ہو ں
    پاتال میں گڑا ہوں
    وہ تُو ہے
    ہر دم فلک کی جانب رواں دواں ہے

    یہ میں ہوں
    جس نے تجھے نکھارا
    تجھے سنوارا
    ترے لئے سب نشیلی راتوں کی نیند چھوڑی
    ترے لئے سارے خواب چھوڑے
    وہ خواب جن میں
    ہزار کرنوں کی روشنی تھی
    بہار جن میں رچی بسی تھی
     
    یہ میری آنکھیں
    یہ زرد آنکھیں!!
    یہ آنکھیں جن میں ہزار راتوں کی تیرگی ہے

    یہ میں ہوں
    تیرے عظیم دولت سرا کو اپنے مہین کندھوں پہ جانے کب سے لئے کھڑا ہوں
    یہ میں
    جو پاتال میں گڑا ہوں

    bojh

    (Transliteration)

    Yawar Maajed

    yeh maiN hooN
    paataal meN gaRa hooN
    voh tu hai
    har dam falak ki jaanab ravaaN davaaN hai
     
    yeh maiN hooN
    jis ne tujhe nikhara
    tujhe saNvaara
    tire liye sab nasheeli raatoN ki neeNd chhoRi
    tire liye saare KHuaab chhoRe
    voh KHuaab jin meN
    hazaar kirnoN ki raushni thi
    bahaar jin meN rachi basi thi

    yeh meri aaNkheN
    yeh zard aaNkheN
    yeh aaNkheN jin meN
    hazaar raatoN ki teergi hai

    yeh maiN hooN
    tere azeem daulat sara ko apne
    maheen kandhoN pe jaane kab se liye khaRa hooN
    yeh maiN jo paataal meN gaRa hooN

     

    7 people like this.
    • یاور ماجد

      میں ابھی اٹھا تو دیکھا کہ احباب کی ای میلز کا ڈھیر لگا ہوا ہے، کچھ گلوں کے ساتھ کہ ان کا کمنٹ کرنے کا اختیار کیوں چھین لیا گیا اور کچھ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے
      فیس بک میں کسی مسئلے کی وجہ سے کوئی دوست بھی اس نظم پر کمنٹ نہیں کر پا رہا۔۔۔ میں… دیکھ رہا ہوں، شاید نوٹس وغیرہ کی کسی سیٹنگ کا مسئلہ ہو،
      اگر یہ مسئلہ نہ سلجھ سکا تو نوٹ کو ڈیلیٹ کر کے دوبارہ ڈال دوں گا۔ بدمزگی کے لئے بہت معذرت خواہ ہوںSee More
      January 11 at 6:08am
    • Raza Siddiqi boht achay

      January 11 at 6:17am
    • یاور ماجد سب احباب کو دوبارہ ٹیگ کر دیا ہے، بدمزگی کے لئے ایک بار پھر معافی کا طلبگار۔

      January 11 at 6:17am
    • Irfan Sattar یاور بہت اچھی نظم ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی لفظیات اور آہنگ خیال کےساتھ پوری طرح انصاف کررہے ہیں۔ اچھا خیال یا اچھا کرافٹ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے، مگر جب دونوں یکجا ہوں تو ایک اچھی نظم بن پاتی ہے، جس کی بہت عمدہ مثال آپ کی یہ نظم ہے۔ نظم کا اختتام بہت پُراثر انداز میں کیا ہے، اور ابتدا سے انتہا تک کا دائرہ بہت اچھے طریقے سے مکمل بنا ہے۔ خوش رہیئے۔ شریک کرنے کا شکریہ۔

      January 11 at 6:23am
    • Shoaib Afzaal yawar may nay ap ki nazm subah parhi thee phir waqtan fawaqtan 3 ya 4 martaba parhi koi bhi takhliq apnay khaliq kay batin taq janay ka rasta hoti hay aur yaha ap ki nazm ki aafaqiyat nay bohat mutasir kia…xindagi ki yeh falsfana tozeeh bohat purasr hay bohat si dad qabul kejeye.

      January 11 at 6:58am
    • Azm Behzad

      برادرم بہت اچھی نظم ہے۔اس نظم کا ظہور
      تعلقات کی کشاکش سے ہوتا ہے ، جب خلوص کی میزان
      برابر نہ رہے اور کوئ ایک پلڑا جھکتا ہی چلا جائے تو اس طرح کا
      اظہار تشکیل پا جاتا ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ ایک پرانی نظم ہے
      ظاہر ہے کہ یہ اس جذباتی عمر کا بیان ہ…ے جب کسی کے
      لیئے بے لوث ہونا فطری عمل ہوتا ہے اور نفع و نقصان کے
      لفظ لغت میں جگہ نہیں پاتے۔مجھے خوشی ہے کہ آپ نے
      اہل_محبت کے اس مشترک تجربے کو بہت خوبصورتی
      سے شعریت میں منتقل کر دیا۔اللہ بہت خوشیاں دے۔See More
      January 11 at 7:00am
    • یاور ماجد

      بہت شکریہ رضا صدیقی صاحب، عرفان صاحب ، شعیب صاحب اور عزم صاحب۔
      عزم بھائی، یہ نظم سن ۲۰۰۰ کی ہے، ان دنوں زندگی کے سفر نے ایک نیا موڑ لیا تھا اپنے اندر کا شاعر مجھے مرتے ہوئے نظر آیا، پھر ایک دو سالوں کے اندر اندر رائیٹرز بلاک کی بیماری نے آ… لیا اور اگلے کئی سال تک کچھ لکھ ہی نہیں سکا، یہ نظم گویا ایک شاعر کی مرنے سے پہلے کی آخری ہچکی سی تھی۔
      آپ کی توجہ کا ممنون ہوںSee More
      January 11 at 7:06am
    • Jamshed Masroor Nice

      January 11 at 7:22am
    • Zahid Ahmed khoobsurat

      January 11 at 7:26am
    • Kashif Haider Buhat umda nazm hai yaqeen karain buhat lutf aaya iss koo parh kar

      January 11 at 7:38am
    • Masood Quazi زرد آنکھوں کی اسطلاحی ترکیب معنی خیز ھے
      منجملہ عمدہ شعری تخلیق ھے

      January 11 at 8:08am
    • Nasir Ali

      میں ہوں
      تیرے عظیم دولت سرا کو اپنے مہین کندھوں پہ جانے کب سے لئے کھڑا ہوں
      یہ میں
      جو پاتال میں گڑا ہوں
      یاور بھائی ، بہت لطف دیا ہے آپ کی اس نظم نے ، آج تو کمال کا دن ہے بہت اچھی غزلوں کے ساتھ ساتھ بہت اچھی نظمیں ملی ہیں پڑھنے کو ۔ رفیع ،علی زریو…ن، علی ارمان ، کامران اور باقی یاور رہ گیا تھا وہ بھی اتنی اچھی نظم سمیت اپنی موجودگی کا اعلان کر رہا ہے ۔See More
      January 11 at 8:10am
    • Jameelur Rahman nazm ka majmui taassar achcha hai.purani shi magar aap ki to hai.

      January 11 at 8:36am
    • یاور ماجد شکریہ جلیل صاحب، آپ کی شکایت بجا، میں نے نوٹ ایڈٹ کر کے لفظ پرانی نکال دیا ہے۔ نظم پڑھنے پر اور تبصرہ کرنے پر آپ کا بھی اور باقی احباب کا بھی بےحد شکریہ

      January 11 at 8:40am
    • Majeed Akhtar بھائی کل میں اپنا کمنٹ پوسٹ نہ کرپایا اور سمجھتا رہا کہ میں کوئی غلطی کر رہا ہوں – نظم مجھے تو بہت پسند آئی ۔ اختتام بھی پر اثر ہے ۔ نظم میں بڑی روانی ہے خیالات کی رو کہیں جھٹکا نہیں کھاتی ۔ مبارکباد ، ڈھیروں داد اور دعائیں ۔

      January 11 at 10:04am
    • Ahmad Safi یاور میں اس نظم سے بہت متاثر ہؤا ہوں۔
      !لکھتے رہو

      January 11 at 10:37am
    • Qayyum Khosa Bahut Umda Yawar Majid Sahib. Shareek Karnay Ka Shukriyah. Khush Rahain.

      January 11 at 10:46am
    • Faiz Alam Babar kia hi umda aur taseer sy bharpoor nazm hy bhot si daad yawar bhaii

      January 11 at 1:35pm
    • Ali Zubair

      یاور ماجد عجیب نظم ہے،اس نظم کا فلسفہ ”بنیاد” ہے۔ یہ نظم اتنی جلدی اپنے معنی قاری پر نہیں کھولتی۔مگر جب کھولتی ہے تو اپنے خالق کے لیے اپنے قاری سے بے ساختہ کلمئہ تحسین برآمد کرواتی ہے،کمال نظم ہے یار کمال نظم ہے، اس نظم کو سمجھنے کے قاری …کے لیے لازم ہے کہ وہ سیاق و سباق پر غور کرے۔
      ایک عام رہائشی مکان کی بنیاد سے اس نظم کا خمیر اٹھا ہے۔اس نطم میں انسان کا وہ عظیم دعوا موجود ہے کہ جس میں وہ خود کو کائنات کا مرکز و محور گردانتا ہے۔ یاور بہت اچھی نظم ہےSee More
      January 11 at 2:14pm
    • Zafar Khan یاور عمدہ نظم ہے۔سب الفاظ نظم کے عمومی مفہوم کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں لیکن مجھے اسکے آخر میں یہ احساس ہوا جیسے شاید آپ ابھی اور کچھ کہنا چاہتے ہوں۔جیسے آپ اس تعلق کو جس کا ذکر اس نظم میں ہے اس کی مزید تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میرا یہ خیال انفرادی ہے یا کسی اور کا بھی اس طرف دھیان گیا۔

      January 11 at 2:59pm
    • یاور ماجد بہت شکریہ مجید صاحب، صفی صاحب، قیوم صاحب، فیض صاحب، علی زبیر صاحب اور ظفر صاحب۔

      January 11 at 3:34pm
    • Gulnaz Kausar ظفر میں اتفاق کروں گی آپ سے یہ ایک تعلق ہی ہے ۔۔۔۔ ایسا تعلق جس میں ایک ہاتھ بس دینے ہی دینے والا ہے ۔۔۔۔۔ اور مزید تفصیل بیان نہ کرنا ہی اس کی اصل خوبصورتی ہے ۔۔۔۔ اب تم اسے باپ بیٹے کے تعلق سے شروع کر کے کہیں بھی لے جاءو ۔۔۔۔۔

      January 11 at 4:00pm
    • Gulnaz Kausar یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ جو نظموں میں اور طرح کے لطف تلاشتے ہیں اس نظم کے ملائم اثر سے صاف بچ نکلیں لیکن اکثریت اس مغموم کیفیت میں ایک لحظہ کو گرفتار ضرور ہوگی۔۔۔۔ بات تو عام ہی ہے یعنی جیسے پیڑ اپنی ساری توانائ بیل کو بخش دے اور خود سوکھ کر سیاہ پڑجائے ۔۔۔۔ مگر جو منظر تراشا گیا ہے وہ اس عام بات کو خاص بنانے مین کامیاب رہا ہے۔۔۔۔۔ بہت اچھے یاور۔۔۔ عمدہ نظم ہے۔۔۔۔

      January 11 at 4:06pm
    • Zafar Khan میں گل کی بات سے متفق ہوں۔

      January 11 at 4:18pm
    • Kamran Haider Bukhari Yawar bhai, iss nazm ki jitni ta’reef ki jaye kam hai… Aap ki nazm mein assar iss liye hai kyonkay mein jaanta hoon kay yeh alfaaz jo aik ro mein beh rahay hain, aik dard rakhnay waalay dil se niklay hain… Aap jo mehsoos kartay hain wohi likhtay hain… Aur koi maanay ya na maanay yeh aawaaz dil ko ik baar jhunjhulaati zaror hai…

      January 12 at 1:35am
    • Jawad Sheikh wah. bohot khoobsurat nazm hai yawar sahib. bohot achha laga parh ker. bohot mukammal..!!! congrats.

      January 12 at 4:17am
    • Zakir Hussain Ziai Bahut Achhee Nazzm Hey Yawar Bhaii.. Salamat Rahiye.

      January 12 at 4:54am
    • Faizan Abrar

      یہ میں ہوں
      تیرے عظیم دولت سرا کو اپنے مہین کندھوں پہ جانے کب سے لئے کھڑا ہوں
      یہ میں
      جو پاتال میں گڑا ہوں

      …یاور بھائی بہت عمدہ نظم کہی ہے۔۔۔ ہر سطر اپنی روانی اور معانی کے لحاظ سے لطف دے رہی ہے۔۔۔ خاص کر نظم کا آخری حصہ اپنے الفاظ سے ہٹ کر اپنے اندر جو انداز اور معانی لئے ہے وہ کمال ہے۔۔۔ بہت پسند آئی آپ کی یہ نظم۔See More

      January 12 at 5:58am
    • یاور ماجد شکریہ ظفر صاحب، گلناز جی، کامران صاحب، جواد صاحب، ذاکر صاحب اور فیضان بھائی۔ اپنی سی کوشش میں لگا رہتا ہوں دل کا حال سنانے، اگر ایسا ہی کسی اور پر بھی بیتا ہو اور وہ بھی ایسے احساسات کو اسی شدت سے محسوس کر لے اور اس سے محظوظ ہو جائے تو یہی میرا انعام ہے۔

      January 12 at 7:00am
    • اعجاز عبید اچھی نظم ہپے یاور۔ الفاظ کا صحیح انتخاب اور رواں دواں نظم۔

      January 12 at 11:55am
    • Iqbal Khawar یاور اپنے تاثر اور ٹریٹ منٹ میں یہ ایک مکمل اور بھرپو ر نظم ہے۔ داد قبول کیجے

      January 12 at 12:48pm
    • Amjad Shehzad yawar bhai……buht aala nazm hai. Asl mein mere nazdeek kisi bhi fun para ki aik khoobi yeh bhi hai k har qari us ko apni fehm, mizaj, zehn aur maarooz k mutabiq maani pehna ker lutf utha sakta ho. Yeh nazm bhi aisi hi hai. Khishi hoi k aap ghazal k sath sath nazm bhi usi khoobi sa kehte hain.

      January 13 at 12:48am
    • یاور ماجد اعجاز صاحب، ہمیشہ کی طرح آپ کی توجہ بہت سرشار کر دیتی ہے، خدا آپ کو خوش رکھے اور صحت اور لمبی عمر عطا فرمائے۔
      اقبال خاور صاحب، بہت ممنون ہوں داد کا
      امجد صاحب، آپ کا انتظار تھا، نظم پڑھنے کا اور رائے دینے کا بہت شکریہ

      January 13 at 6:01am
    • Fehmida Ishtiaq Bohat khobsurat nazm hay… Daad kabool kijiye

      January 13 at 11:39am
    • Mansoor Nooruddin Nice expression

      January 13 at 2:33pm
    • Mohammad Naeem bohut umda nazm hai.
      khush rahiye.

      January 14 at 6:12am

    Autumn Never Rusts Away

    Posted: 2009/10/04 by ymaajed in نظم

    Autumn Never Rusts Away

    Yawar Maajed

    Forget the fantasy of the thousand nights,
    For, its been centuries and I have been trying to embody just one single imagination
    The mammoth of the wish
    I have in my heart
    Is just this curiosity, unending
    Dying for the moment when it will find its destination

    But that moment!!
    That dreadful moment,
    When all the wishes of the heart
    Join together
    Becoming one
    Wearing the mourning dresses
    In the below freezing cold of time
    Leave rust on a world of mine!!

    The spring time calls me
    from far ahead
    from the gardens of my dreams
    But the autumn
    It just refuses to rust away

     

    خزاں نہ جائے

    Posted: 2009/10/04 by ymaajed in نظم, اردو شاعری

    ہزار راتوں کی بات چھوڑو
    کہ ہم تو صدیوں سے اِک تصو ّر کوجسم دینے کو رو رہے ہیں!
    ہمارے دِل میں جو بے نہایت سی آرزو ہے
    یہ جستجو ہے
    جسے ابھی تک نجانے کتنی ہی حسرتیں ہیں
    مگر وہ لمحہ!،
    کہ جب سبھی خواہشیں سنور کر
    بس ایک حسرت کے برف پیکر
    میں ڈھل کے ماتم کا رنگ اوڑھیں
    تو ایک عالم پہ زنگ چھوڑیں
    بہار خوابوں کے گلستاں سے ہمیں بلائے
    خزاں نہ جائے

    یاور ماجد

    ———————————–

     

    KHizaaN na jaaye

    Yawar Maajed

     
    hazaar raatoN ki baat chhoRo
    keh ham to sadiyoN se ik tasavvur ko jism dene ko ro rahe haiN
    hamaare dil meN jo be-nihaayat si aarzoo hai
    yeh justuju hai
    jise abhi tak
    najaane kitni hi hasrateN haiN
    magar voh lamha
    keh jab sabhi KHuaahisheN saNvar kar
    bas ek hasrat ke barf paikar meN Dhal ke maatam ka rang oRheN
    to ek aalam pe zang chhoReN
     
    bahaar KHuaaboN ke gulsitaaN se hameN bulaaye
    KHizaaN na jaaye
     
    ————————–

    Autumn Never Rusts Away

    Yawar Maajed

     
    Forget the fantasy of the thousand nights,
    For, its been centuries and I have been trying to embody just one single imagination
    The mammoth of the wish
    I have in my heart
    Is just this curiosity, unending
    Dying for the moment when it will find its destination
     
    But that moment,
    That dreadful moment,
    When all the wishes of the heart
    Join together
    Becoming one
    Wearing the mourning dresses
    In the below freezing cold of time
    Leave rust on a world of mine!!
     
    The spring time calls me
    from far ahead
    from the gardens of my dreams
    But the autumn
    It just refuses to rust away

     

     

    4 people like this.
    • I read it in the evening and have red it many times since then. I can’t grasp it all for some reason,…. at the same time I like it a lot. KhzaN ki eternity ki jo bat hay , bohot hi mutassir kun hay. A very different and unique thought.

      I l…oved the English version as well.See More

      October 4, 2009 at 2:11am
    • Arif Imam kia baat hai yar, bohat hi pur taseer nazm hai, majeed aur Gulnaz ne jo kaha hai baja kaha hai. mai bhiisi kefiat maiN hoon nazm ko parh kar.
      October 4, 2009 at 2:46am
    • is nazam ka sab say khaas baat yah hai keh aik dafa to paRha hi nahi ja raha …baar baar paRhnay ko dil kar raha hai … or her baar kafiyat jo is nazam main hai woh pehlay zaida asar ker rahi hai.. yeh bohat gehri or kafiyat wali nazam ha…i

      Aap k liye bohat see duaainSee More

      October 4, 2009 at 7:47am
    • اعجاز عبید واہ، اچھی نظم ہے یاور صاحب۔ اور اتنی شکلوں میں!!! بمع انگریزی ترجمہ کے، اور وہ ترجمہ بھی بہت خوب ہے۔
      October 4, 2009 at 12:08pm
    • یاور ماجد شکریہ اعجاز صاحب
      October 4, 2009 at 1:13pm
    • Kamran Haider Bukhari one word… Beautiful… !!!
      October 5, 2009 at 12:18am
    • Muhammad Waris بہت خوبصورت نظم ہے یاور صاحب، لاجواب، بہت خوب۔
      October 5, 2009 at 2:49am
    • Faiz Alam Babar soz o gudaaz maiN Doobi nihayat umda aur pur asar nazm wah yawar bhaii kia kehney aap key ,mazeed kalaam ka intezaar rehe ga thanx
      October 5, 2009 at 5:09pm
    • Shipra Agrawal Beautiful!!!read it many times. find more interesting every time I read. will wait for more….
      October 15, 2009 at 2:48am
    • Qudsia Nadeem Laly bohat khoob,
      baharr khwaboon ky gulistaan say hamain……
      December 21, 2009 at 1:21pm
    • Faizan Abrar یاور بھائی کیا کمال نظم کہی ہے۔۔۔ حیران کر دینے والی اور آہستہ آہستہ اپنی پرتیں کھولتی یہ چھوٹی سی مگر گہری نظم بہت پسند آئی۔۔۔ اللہ آپ کو شاد رکھے، آباد رکھے۔۔۔
      January 16 at 1:41am