۲ اکتوبر ۲۰۱۱
چلو گمان سہی کچھ تو مان ہی ہوتا
جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا
میں بے امان رہا اپنے گھر میں رہ کر بھی
کوئی بھی ہوتا یہاں، بےامان ہی ہوتا
جہاں پہ بسنا تھا ہر ایک لامکانی کو
ضرور تھا کہ وہ میرا مکان ہی ہوتا؟
تو اختیار میں کچھ لفظ ہی عطا ہوتے!!
دیا جو درد ہے مجھ سے بیان ہی ہوتا!
نہ رہتا فاصلہ گر مجھ میں اور زمانے میں
تو میرے اور مرے درمیان ہی ہوتا
گگن پہ کھینچ کے سورج کو لا کے رکھ دیتا
جو سرخیوں کا افق پر نشان ہی ہوتا
ضرور تھا کہ کمالِ بیاں عطا کرتے؟
ضرور تھا کہ مرا امتحان ہی ہوتا؟
نہیں گلہ کوئی یاؔور پہ بحرِ غم میں کہیں
مرے سفینے پہ اک بادبان ہی ہوتا