گل کی فطرت تم نہ دیکھو صرف مہکاروں میں بند
کچھ تو نظروں سے پرے بھی ہے چھُپا خاروں میں بند
جانے کتنی روشنی مجھ تک پہنچ پاتی نہیں
آسماں کی اوٹ کے پیچھے کہیں تاروں میں بند
رِہ کے زنداں میں پروں پر کیا جوانی آئے گی
چار دن اُڑنے کے تھے اور ہم رہے چاروں میں بند
وقت کے کولہُو میں جُت کر ڈھوندتے ہی رہ گئے
لحظہ گم نروان کا تھا لمحوں کے دھاروں میں بند
اک کرن ہیرے کے اندر قید رہ کر گھُٹ گئی
مر گئی اک یاد تھی جو دل کی دیواروں میں بند
ہر صدا بس ایک ہی آواز کی ہے بازگشت
چہرہ اک ہی گھومتا ہے آئینہ زاروں میں بند