جو پی لیا تھا، جو سوئے وطن گیا آنسو وہ دِل کی سیپی میں موتی سا بن گیا آنسو جو فرطِ غم سے زباں گنگ ہو گئی میری تو احتجاج سے آنکھوں میں تن گیا آنسو دھواں سا اٹھتے ہوئے اس طرف سے جب دیکھا ہے سوئے کوئے دِل سوختن گیا آنسو سوائے حُزن کے اس دِل میں کچھ رہا ہی نہیں ہے میری روح میں بن کر بدن، گیا آنسو یہ میرا صبر مرا حوصلہ گیا غارت یہ دیکھو آنکھ کی چھلنی سے چھن گیا آنسو جو مصلحت سے مرے لب سلے ہوئے دیکھے کہانی دِل کی سنانے پہ ٹھن گیا آنسو
0