۲۵ اگست ۲۰۰۹
کیا ہوا جو مہ و اختر کے برابر نہ اڑا
وقت کی آندھی مجھے دُھول سمجھ کر نہ اڑا
کیسے اُڑ پاؤں گا آئندہ کے طوفانوں میں
میں تو ماضی کے قفس سے کبھی باہر نہ اُڑا
چھوڑ دے کچھ تو بہاروں کی نشانی مجھ میں
اے خزاں رنگ مرے جسم کا یکسر نہ اڑا
یہ برستی ہوئی بوندیں تو گھٹا کی دیکھو
کون کہتا ہے گگن میں کبھی ساگر نہ اُڑا
کس نے اُڑتے ہوئے ساگر کو فلک پر دیکھا
ایسی بے پر کی مری جاں، مرے یاوؔر نہ اُڑا